اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ ملک میں موجود کالعدم تنظیموں کی نگرانی اور ان کے خلاف کارروائی کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے بشمول ان تنظیموں کے جو نامزد ہونے کے بعد نئے ناموں کے تحت بحال ہوئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینٹ نے وزیر داخلہ احسن اقبال سے کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کی نگرانی میں وزارت داخلہ کے کردار اور متعلقہ ایجنسیوں کے نام جمع کرانے کا مطالبہ کیا تھا جو نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک میں موجود کالعدم تنظیموں کی نگرانی کرتی ہیں۔

سینیٹ کو اپنے تحریری جواب میں احسن اقبال نے بتایا کہ ’دہشت گرد تنظیموں کی نگرانی اور اقدامات کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے، خفیہ ایجنسیوں کو کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کا اختیار حاصل ہے، خفیہ ایجنسی وزارت داخلہ کو ان کالعدم تنظیموں سے متعلق باقاعدہ رپورٹس جمع کرواتی ہیں جو بعد میں نیکٹا اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ شیئر کی جاتی ہیں‘۔

سینیٹ نے وزارت داخلہ سے یہ بھی پوچھا تھا کہ آیا یہ سچ ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے حال ہی میں اٹھایا جانا والا اقدام ناکام ہوا ہے، جس میں عالمی ادارے نے کالعدم تنظیم کے چیف پر پابندیاں عائد کی تھیں۔

خیال رہے کہ سینیٹ نے اپنے سوال میں کالعدم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کا نام لیا تھا جس پر احسن اقبال نے اپنے جواب میں کہا کہ ’محترم سینیٹرز سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اپنے سوال کو مخصوص کریں تاکہ اسی کے مطابق جواب دیا جائے‘۔

ایوان بالا نے وزیر داخلہ سے طالبان کے امیر ملا منصور اختر کے پاسپورٹ اور قومی شماختی کارڈ کے حوالے سے بھی سوال پوچھا تھا، جو گذشتہ سال بلوچستان کے علاقے میں ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے اور ان دونوں دستاویزات کے برآمد ہونے کے حوالے سے خبریں منظر عام پر آئیں تھیں، جس پر وزایر داخلہ احسن اقبال نے اپنے جواب میں بتایا کہ مذکورہ معاملہ میڈیا میں رپورٹ ہوا تھا، جبکہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے مطابق مذکورہ شناختی کارڈ محمد والی کو جاری کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ نادرا نے مذکورہ معاملے کی محکمہ جاتی تحقیقات بھی کیں تھی اور انکوئری میں دی جانے والی تجویز پر کراچی ریجنل ہیڈ آفس کے ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا تھا۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی نے اس حوالے سے ایک کیس بھی درج کیا تھا، انہوں نے 6 مبینہ ملزمان کی نشاندہی بھی کی جن کو گرفتار کرنے کے بعد ضلع کوئٹہ کی جیل میں منتقل کیا گیا تھا، وزیر داخلہ نے بتایا کہ بعد ازاں ملزمان نے ضمانت حاصل کرلی۔

وزارت داخلہ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر جواب نہیں دیا جس میں سینیٹ نے احسان اللہ احسان کی جانب سے قبول کیے جانے والے دہشت گردی حملوں کی تفصیلات اور ان میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کی تفصیلات فراہم کرنے کو کہا تھا۔

مذکورہ سوال کے ایک حصے میں احسان اللہ احسان کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات طلب کی گئیں تھیں اور پوچھا گیا تھا کہ کیا اس حوالے سے فوجی عدالتوں میں کیس زیر سماعت ہیں؟ جس پر وزارت داخلہ نے کہا کہ ’یہ سوال وزارت دفاع کو منتقل کردیا گیا ہے تاہم مذکورہ وزارت نے یہ سوال تاحال جواب کے لیے تسلیم نہیں کیا۔


یہ رپورٹ 15 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں