اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عثمان ڈار کی جانب سے وفاقی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کی نا اہلی کے لیے دائر درخواست پر لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوا دیا۔

پی ٹی آئی کے عثمان ڈار کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت خواجہ محمد آصف کو نااہل قرار دینے کے لیے دائر کی گئی درخواست میں الزام لگایا گیا تھا کہ وفاقی وزیر خارجہ نے متحدہ عرب امارات کی کمپنی میں ملازمت کے معاہدے اور اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔

یاد رہے کہ خواجہ محمد آصف نے 2013 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے رہنما عثمان ڈار کو 21 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔

عثمان ڈار نے اپنی پٹیشن میں دعویٰ کیا تھا کہ خواجہ محمد آصف 2011 سے متحدہ عرب امارات کی کمپنی (آئی ایم ای سی ایل) کے ساتھ خصوصی مشیر کے طور پر وابستہ ہیں۔

مزید پڑھیں: خواجہ آصف کی نااہلی کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست

مزید کہا گیا کہ خواجہ محمد آصف آئی ایم ای سی ایل کے کُل وقتی ملازم ہیں اور انہیں ملازمت کے معاہدے کے مطابق ماہانہ 50 ہزار درہم تنخواہ جاری ہوتی ہے۔

مذکورہ پٹیشن میں تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر سابق وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دینے کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔

پٹیشن میں مزید کہا گیا کہ خواجہ محمد آصف نے یہ تنخواہ وصول کی جو ان کے لیے قابل قبول اثاثہ ہے، تاہم انہوں نے یہ تفصیلات 2013 کے عام انتخابات کے دوران قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 110 کے لیے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیں۔

پٹیشنر نے دعویٰ کیا کہ انہیں حال ہی میں خواجہ محمد آصف کے اقامہ (ملازمت کا اجازت نامہ) اور تنخواہ کی تفصیلات کے بارے میں علم ہوا ہے جس پر خواجہ آصف کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: این اے 110 : خواجہ آصف کے خلاف درخواست خارج

پٹیشن میں نشاندہی کی گئی کہ خواجہ محمد آصف کے اقامے کی حال ہی میں 29 جون 2017 کو تجدید کی گئی اور یہ 28 جون 2019 تک قابل استعمال ہے، اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ خواجہ محمد آصف آئی ایم ای سی ایل کے مستقل ملازم ہیں اور یہ پاکستان کے آئین کے تحت لیے گئے حلف کی خلاف ورزی ہے۔

پٹیشن میں کہا گیا کہ خواجہ محمد آصف اُس وقت بھی وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی کے عہدے پر موجود تھے جب وہ 2013 میں اس کمپنی کے مستقل ملازمت تھے، جب کہ وہ اس سے قبل پی پی پی کے دورِ حکومت میں بھی ان کے اتحادی کے طور پر وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز رہے۔

پٹیشنر کا کہنا تھا کہ دونوں مرتبہ خواجہ محمد آصف نے کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہوئے اپنی ملازمت اور اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ چھپائی۔

جسٹس عامر فاروق نے عثمان ڈار کے وکیل کے ابتدائی دلائل سننے کے بعد کسی قسم کا حکم جاری نہیں کیا اور پٹیشن کو 3 رکنی بینچ کی تشکیل کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور خان کانسی کو بھجوا دیا۔


یہ رپورٹ 19 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں