اسلام آباد: لندن میں قائم بین الاقوامی ثالثی عدالت یا لندن کورٹ آف انٹرنیشنل آربٹریشن (ایل سی آئی اے) نے پاکستان کو ثالثی معاہدوں کی خلاف ورزی پر 9 خودکار پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) یا خود مختار توانائی پیدا کرنے والے اداروں کو 14 بلین ادا کرنے کا حکم دے دیا۔

ایک سرکاری عہدیدار نے اس حوالے سے ڈان کو بتایا کہ ہم کسی دوسرے ملک کے قانون کے پابند نہیں ہیں، اس حوالے سے ہم اپنے ملک کے قانونی طریقہ کار کو اختیار کریں گے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت اس معاملے کی جانچ کررہی ہے اور مقدمہ کے دفاع کے لیے تمام آپشن استعمال کرے گی۔

واضح رہے کہ ثالثی عدالت نے اس سے قبل نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپچچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کو 75دن میں ماہرانہ طریقہ کار رائج کرنے کو کہا تھا لیکن وہ اس میں ناکام رہے، جس کے بعد انہیں اس فیصلے کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھیں: رینٹل پاور ثالثی: پاکستان سب کچھ نہیں ہارا

جن 9 خودکار پاور پروڈیوسر کو یہ رقم ادا کرنے کا کہا گیا ہے ان میں الٹس پاور لمیٹڈ، لیبرٹی پاور ٹیک لمیٹڈ، نشات چھونئن پاور لمیٹڈ، نشات پاور لمیٹڈ، دی حب پاور کمپنی لمیٹڈ، سیف پاور لمیٹڈ، اورینٹ پاور کمپنی( پرائیویٹ) لمیٹڈ، سیفائر الیکٹرک کمپنی لمیٹڈ اور یالمور پاور جنریشن کمپنی شامل ہیں.

خیال رہے کہ مذکورہ کمپنیوں میں سے چند کے اسپانسرز نے چار سال قبل میگا پروجیکٹس کے لیے حکومت سے 480 بلین روپے کے معاہدے بھی کئے تھے۔

واضح رہے کہ آئی پی پیز اور این ٹی ڈی سی کے درمیان اختلاف جنوری 2011 میں شروع ہوئے تھے جب ایندھن کی کمی کی وجہ سے سپلائی میں کمی آئی تھی اور ساتھ ہی این ٹی ڈی سی پر الزام لگایا گیا تھا انہوں نے واجبات ادا نہیں کیے۔

آئی پی پیز کے ذرائع کے مطابق لندن میں قائم بین الاقوامی ثالثی عدالت کے حتمی فیصلے میں این ٹی ڈی سی کے تمام الزامات اور اعتراضات کو مسترد کیا گیا ہے، اپنے فیصلے میں عدالت نے ثالثی کی خلاف ورزی کرنے پر 10 ارب 97 کروڑ 70 لاکھ روپے ادا کرنے کو کہا ہے جس میں 2 ارب 54 کروڑ 70 لاکھ روپے سود کی مد میں، 8 کروڑ 28 لاکھ ثالثی معاہدوں کی خلاف ورزی، دعویداروں کی اخراجات کی مد میں ایک کروڑ 51 لاکھ روپے اور دعویداروں کی مد میں 55 لاکھ ڈالر جبکہ ثالثی عدالت کے اخراجات کی مد میں 2 لاکھ 71 ہزار 4 سو 17 پاونڈز کی ادائیگی شامل ہے۔

توانائی پیدا کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے انہوں نے متعدد مرتبہ این ٹی ڈی سی، ضمانت داروں اور حکومتِ پاکستان سے رابطہ کیا اور معاملے کو حل کرنے کا کہا لیکن کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔

آئی پی پیز نے 2012 کے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں مزید کہا کہ کورٹ نے آرٹیکل 184 کی شق 3 کی روشنی میں کہا تھا کہ این ٹی ڈی سی مقررہ رقم ادا کرے تاہم این ٹی ڈی سی نے کچھ رقم ادا کرکے آئی پی پیز اور حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس میں حکومت کو اس حوالے سے تمام معاملات نمٹانے کا کہا گیا تھا۔

اس حوالے سے تجزیہ کار جسٹس (ر) سائر علی کا کہنا تھا کہ این ٹی ڈی سی 30 دن کے اندر آئی پی پیز کے واجبات ادا کرسکتا ہے اور ان واجبات میں کٹوتی بھی نہیں کی جاسکتی۔

توانائی پیدا کرنے والے ادارے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کورٹ کے حکم کے حوالے سے ہائی کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست بھی دائر کریں گے۔


یہ خبر یکم نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں