حکومت پاکستان، ترک کمپنی ’کارکے کارادینز‘ کو بین الاقوامی ثالثی قوانین کے تحت معاوضے کے تسلسل کو ختم کرنے کے لیے قانونی سمجھوتے کے آپشن پر غور کر رہی ہے۔

سیکریٹری توانائی زرغام اسحٰق خان کا کہنا ہے کہ دو طرفہ سرمایہ کاری معاہدے کے تحت کوئی بھی ملک مختلف بنیادوں پر عالمی بینک سے منسلک انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمینٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹ (آئی سی ایس آئی ڈی) کی جانب سے جاری کرہ معاوضے سے منسوخی حاصل کر سکتا ہے۔

انٹرنیشنل ڈسپیٹ یونٹ (آئی ڈی یو) کے عہدیدار احمد عرفان اسلم نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت، پاکستان اور ترک کمپنی کے درمیان معاہدے کی منسوخی پر آئی سی ایس آئی ڈی ٹریبیونل کی جانب سے ترک کمپنی کے حق میں دیے جانے والے فیصلے کے بعد نقصان کا ازالہ کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: غیرقانونی بھرتیاں:سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پر فردِ جرم عائد

تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کو اس معاہدے میں ہونے والا نقصان 80 کروڑ ڈالر تک ہے۔

ایک سوال کے جواب میں آئی ڈی یو حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان آئی سی ایس آئی ڈی میں اس کیس کا حتمی فیصلے آنے سے قبل رواں برس 20 دسمبر تک نظر ثانی کیس دائر کرے گا۔

ترک کمپنی ’کارکے کارادینز‘ نے پاکستان کے خلاف 2013 میں دو طرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے کی خلاف ورزی اور غیر قانون طور پر اثاثوں کو نقصان پہنچانے پر آئی سی ایس آئی ڈی میں کیس دائر کیا تھا۔

اس کیس کا فیصلہ گذشتہ ماہ اگست میں آیا جسے دونوں فریقین کی جانب سے منظر عام پر نہیں لایا گیا تاہم اس پیش رفت سے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کیس کے فیصلے کو منظر عام پر نہ لانے کا فیصلہ حکومت پاکستان کا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان اس وقت ترک کمپنی کے ساتھ اس مسئلے کو باہمی طور پر حل کرنے کے لیے رابطے میں ہے تاہم اس حوالے سے کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کیونکہ اس ملاقات کے لیے ابھی تک وقت اور جگہ کا تعین نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: راجہ پرویز اشرف کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ

پاکستان نے آئی سی ایس آئی ڈی میں سپریم کورٹ پاکستان کے فیصلے کو اس کیس میں شامل کرنے کی درخواست کی تھی جس میں عدالت عظمیٰ نے اس معاہدے کو غلط قرار دیا تھا تاہم بین الاقوامی ٹریبیونل نے پاکستان کی اس درخواست پر بھی توجہ نہیں دی۔

پاکستان کی درخواست کے جواب میں بین الاقوامی ٹریبیونل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ریاست کا حصہ ہے لہٰذا اس فیصلے کو ریاستی طرزِ عمل کے طور پر لیا جائے گا۔

بین الاقوامی ٹریبیونل کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی عدالتیں رینٹل پاور پلانٹ (آر پی پی) کے کیسز کا فیصلہ کرنے کے لیے ضروری شواہد کے معیار کو قبول کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

تاہم حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے پاس آئی سی ایس آئی ڈی کے فیصلے کو روکنے کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ موجود نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: ’کرپشن ثابت ہوجائے تو قوم کا ہاتھ اور میرا گریبان ہوگا‘

حکام نے بتایا کہ اس کیس کی سماعت کے دوران اس وقت کے سیکریٹری پانی و بجلی شاہد رفیع اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے سینئر تفتیش کار کو گواہی دینے کی اجازت نہیں دی گئی جو پاکستان کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔

خیال رہے کہ کارکے کارادینز کی جانب سے تیار کردہ 232 میگا واٹ کے حامل پاور پلانٹ کو حاصل کرنے کا یہ معاہدہ آصف علی زرداری کی حکومت نے کیا جس کے تحت پاکستان میں بجلی کے شدید بحران پر قابو پانا تھا اور رینٹل پاور پلانٹ لگا کر 1 ہزار 206 میگا واٹ بجلی حاصل کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔

تاہم 30 مارچ 2012 کو سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے پیپلز پارٹی کی توانائی پالیسی کے تحت رینٹل پاور پروجیکٹ کو غیر شفاف قرار دے کر نیب حکام کو ذمہ داران کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دے دیا تھا۔


یہ خبر 30 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

aHMED ZARAR Sep 30, 2017 08:18pm
only Rs:3.40 per unit will be charged from 2015 till present meter reading.This mean big SURCHARGE ,a common man has any other option??? we have to pay the electricity which we didn't use at all.