اسلام آباد: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تین روزہ سرکاری دورہ پر تہران پہنچ گئے۔

واضح رہے کہ دو دہائیوں کے بعد کسی بھی پاکستانی آرمی چیف کا ایران کا یہ پہلا دورہ ہے۔

آرمی چیف کے دورے کے حوالے سے پاک فوج کے شعبہ تعلقہ عامہ( آئی ایس پی آر) کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ دورے کے دوران آرمی چیف ایران کی سول اور فوجی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔

مزید پڑھیں: پاک-ایران مشاورتی اجلاس:خطے میں پائیدار امن کیلئے تعاون کااعادہ

یہ بھی امید کی جارہی ہے کہ ایران کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات سے قبل آرمی چیف سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے بھی ملاقات کریں گے۔

اس دورے کو دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کے فروغ کے حوالے سے اہم قرار دیا جارہا ہے۔

توقع کی جارہی ہے کہ یہ دورہ عالمی سیاست اور کافی عرصے سے خطے میں کم ہوتی اعتماد کی فضا کو بحال کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کو فروغ دے گا۔

خیال رہے کہ جغرافیائی اور سیاسی طور پر تعاون کی کمی کے باعث دونوں پڑوسیوں کے درمیان سیکیورٹی معاملات پر اختلافات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا دورہ مشرق وسطیٰ

اس بارے میں اسلام آباد کو تہران سے یہ تحفظات ہیں کہ ایران میں بھارت کی مداخلت اقتصادی اور تجارتی امور پر اثر انداز ہوتی ہے جبکہ بھارت، پاکستان کے خلاف ایرانی سرزمین کو بھی استعمال کرتا ہے۔

دوسری جانب تہران دونوں ممالک کے درمیان موجود سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کی جانب سے ایرانی سرحدی محافظوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے فکر مند ہے۔

اسلام آباد کو یہ بھی تحفظات ہیں کہ عرب دنیا کے تنازع میں تہران ملوث ہے جبکہ دوسری جانب ایران پاکستان کے عرب بادشاہوں کے ساتھ بہتر تعلقات کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

یاد رہے کہ جنرل باجوہ نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالتے ہی تہران کے ساتھ بہتر تعلقات کے فروغ میں کردار ادا کرنے کا آغاز کیا، اس حوالے سے انہوں نے گذشتہ کچھ ماہ میں کئی بار پاکستان میں ایرانی سفیر مہدی ہنردوست نے ملاقات کی، ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ خطے کے استحکام اور امن کے لیے پاک ایران فوجی تعاون کا فروغ ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: پاک-ایران تعلقات: دہشتگردوں کی نقل و حرکت کے خلاف موثر کارروائی کا فیصلہ

واضح رہے کہ یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ داعش خطے کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہے جس کے لیے امریکا کی افغانستان میں رکنے کی پالیسی دونوں ممالک کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہے اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات ضروری ہیں۔

اس بارے میں ڈائریکٹر جنرل نور انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز تہران ڈاکٹر سعد اللہ زرئی کا اسلام آباد پالیسی انسٹیٹیوٹ کے بیان پر کہنا تھا کہ ٹرمپ کی خطے کے لیے نئی پالیسی دونوں پڑوسیوں کے درمیان بہتر تعلقات میں اہم ہے۔

خیال رہے کہ ایران دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنائے جانے پر پاکستان کی حمایت کی تھی، جس کے بعد وزیر خارجہ خواجہ آصف نے تہران کا دورہ بھی کیا تھا اور ٹرمپ کی پالیسی کے حوالے سے علاقائی ممالک سے تبادلہ خیال کیا تھا۔

سعد اللہ زرئی کا کہنا تھا تہران، اسلام آباد سے بہتر تعلقات کا خواہشد مند ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل 2016 میں جنرل ( ر) راحیل شریف اور 2000 میں جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایران کا دورہ کیا تھا تاہم وہ سرکاری سطح کا دورہ نہیں تھا، جنرل (ر) راحیل شریف اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے ہمراہ تہران گئے تھے جبکہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے اجلاس میں ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان فوجی تعاون کی شروعات مشرقی وسطی اور خلیج میں بہتر تعلقات کی راہ ہموار کرنے میں کردار ادا کرے گی۔


یہ خبر 6 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں