اسلام آباد: پارلیمانی رہنماؤں نے مردم شماری کے عبوری نتائج کے تحت نئی حلقہ بندیوں کے لیے آئین میں ترمیم کے بل پر اتفاق کرلیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس ہوا، جس میں آئین میں ترمیم کا بل جمعرات کو قومی اسمبلی سے منظور کرانے پر اتفاق کیا گیا۔

تاہم اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) رہنماؤں کی عدم موجودگی کے باعث فیصلہ کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کے ارکان کی موجودگی میں جمعرات کو 2 بجے بل کی حتمی منظوری دی جائے گی۔

اس حوالے سے اہم پیشرفت دو روز قبل مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں ہوئی تھی، جس میں سندھ نے مردم شماری کے عبوری نتائج کی روشنی میں انتخابات کرانے پر رضا مندی کا اظہار کیا جبکہ وفاقی حکومت نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ کچھ آبادی کے بلاک میں وہ تھرڈ پارٹی آڈٹ کرایا جائے گا۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ آئین میں ترمیم کے بل کی قومی اسمبلی سے قبل مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس سے منظوری لی جائے۔

تاہم متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے آج کے اجلاس میں ایک بار پھر ترمیم پر اعتراضات اٹھائے اور حکومت پر مردم شماری کے حوالے سے سندھ کے تحفظات کو پس پشت ڈالنے کا الزام لگایا۔

اجلاس کے دوران ایم کیو ایم کے رہنما شیخ صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ’ایم کیو ایم کے مردم شماری پر تحفظات برقرار ہیں جو حل نہ ہوئے تو بل پر اپنا اختلافی نوٹ دیں گے۔‘

ایم کیو ایم کا موقف کا تھا کہ نئی حلقہ بندیاں مردم شماری کے نتائج کے بجائے ووٹرز لسٹ کے مطابق کی جانی چاہئیں۔

یاد رہے کہ وزیر قانون زاہد حامد نے تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے ’اتفاق رائے‘ کے بعد 2 نومبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں حلقہ بندیوں سے متعلق ترمیمی بل پیش کیا تھا۔

تاہم ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے بل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے ’غیر آئینی‘ قرار دیا، جس کے نتیجے میں بل کو مزید مشاورت کے لیے واپس کردیا گیا تھا۔

’ختم نبوت‘ شقوں کو دوبارہ بحال کیا جائے گا

پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں ’ختم نبوت‘ سے متعلق ’کنڈکٹ آف جنرل الیکشنز آرڈر 2002‘کی شق 7 بی اور 7 سی کو بھی اصل شکل میں بحال کرنے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے امید ظاہر کی کہ ختم نبوت سے متعلق بل کے بعد اسلام آباد میں جاری دھرنا ختم ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ختم نبوت کے حوالے سے متنازع ترمیم:تحقیقاتی رپورٹ جمع

واضح رہے کہ انتخابی اصلاحاتی بل 2017 کی وجہ سے جنرل الیکشن آرڈر 2002 میں احمدی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں ’سیون بی‘ اور ’سیون سی‘ بھی خارج ہوگئیں تھیں، جو کہ اب ترمیمی بل کی وجہ سے واپس اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوجائیں گی۔

مذکورہ شقوں کے مطابق انتخابی عمل میں حصہ لینے پر بھی احمدی عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد کی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسا کہ آئین پاکستان میں واضح کی گئی ہے۔

اگرچہ حکومت نے اسے ’کتابت کی غلطی‘ قرار دیا تھا لیکن اس شقوں کے خارج ہونے پر مذہبی جماعتوں کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا، جس کے باعث دارالحکومت میں لاک ڈاؤن کی سورتحال پیدا ہوگئی۔

تبصرے (0) بند ہیں