اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ’یروشلم‘ یا بیت المقدس کے حوالے سے ایک قرار داد پر ووٹنگ ہوئی ہے، جس کے مطابق بیت المقدس میں اسرائیل کی جانب سے کسی بھی قسم کی کارروائی یا دباؤ اور طاقت کا استعمال غیر قانونی ہوگا اور اس سے گریز کیا جانا چاہیے۔

خیال رہے کہ یہ قرار داد ان رپورٹس کے بعد پیش کی گئی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے پر غور کر رہی ہے۔

اس قرار داد کے حق میں سب سے زیادہ 151 ریاستوں نے ووٹ دیا جبکہ 6 ریاستوں امریکا، کینیڈا، مائیکرونیزیا کی وفاقی ریاستوں، اسرائیل، جزائر مارشل، ناورو نے قرارد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔

اس کے علاوہ 9 ریاستوں آسٹریلیا، کیمرون، وسطی جمہوری افریقہ، ہونڈرس، پاناما، پاپوا نیو گنی، پیراگوائے، جنوبی سوڈان اور ٹوگو نے قرارداد کو ووٹ دینے سے گریز کیا۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی پولیس کی فائرنگ، امام مسجد الاقصیٰ سمیت 14 افراد زخمی

امریکی نائب صدر مائک پینس نے گزشتہ دنوں بتایا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ اقدام ایک سنجیدہ سوچ کی جانب دکھیل رہا ہے۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھر ناؤٹ کے مطابق امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کیا گیا ہے اور ہم اس حوالے سے بہت احتیاط سے کام لیں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ 4 دسمبر تک سفارت خانے کی منتقلی کا فیصلہ کریں گے یا 6 مہینے کے لیے اس معاملے سے دستبردار ہوجائیں گے لیکن لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے اخیتار کردہ قرار کی حیثیت مسترد ہوجائے گی۔

امریکی نائب صدر مائیک پینس نے گزشتہ روز بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاملے پر انتہائی سنجیدگی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

حماس کا انتفاضہ کا اعلان

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی تنظیم حماس نے گزشتہ روز کہا ہے کہ اگر واشنگٹن بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتا ہے یا اپنا سفارتخانہ اس متنازع شہر میں منتقل کرتا ہے تو ایک نئی ’ انتفاضہ‘ شروع کی جائے گی۔

حماس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم اس طرح کے اقدام کے حوالے سے خبردار کرتے ہیں کہ اگر بیت المقدس سے متعلق کوئی ظالمانہ فیصلہ اپنایا گیا تو فلسطینی عوام سے انتفاضہ بحال کرنے کا مطالبہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: فلسطین کے وزیر اعظم حماس سے مصالحت کیلئے غزہ پہنچ گئے

انہوں نے کہا کہ سفارت خانے کی منتقلی کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے شہر پر بدترین حملہ ہوگا اور یہ اسرائیل کو اپنے جرائم جاری رکھنے اور شہر کو فلسطینیوں سے خالی کروانے کے عمل کو تحفظ دے گا۔

واضح رہے کہ بیت المقدس، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے اور دونوں ہی ریاستیں دعویٰ کرتی ہیں کہ یہ شہر ان کا دارالحکومت ہے۔

خیال رہے کہ آخری انتفاضہ یا بغاوت سن 2000 میں ہوا تھا جب دائیں بازو کی مخالف جماعت کے رہنما ایریل شیرون نے مسجد اقصیٰ کا دورہ کیا تھا، جس کے نتیجے 3 ہزار فلسطینوں کو قتل جبکہ ایک ہزار اسرائیلیوں کی ہلاکت کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔

فلسطین کے صدارتی آفس نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ امریکا کا بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا امن کے عمل کو تباہ کرے گا۔

وائٹ ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے قبل از وقت اس معاملے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ہے لیکن اے ایف کے ذرائع کے مطابق وہ توقع کر رہے ہیں کہ امریکی صدر بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے دیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں