متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے واضح کیا ہے کہ ان کی جماعت کا پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) میں ضم ہونا ایک ناممکن امر ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'سوال سے آگے' کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں فاروق ستار کا کہنا تھا کہ گذشتہ 35 سالوں میں جس طرح سے ریاستی جبر ایم کیو ایم نے برداشت کیا، وہ پاکستان کی سیاست میں ایک طویل جدوجہد کا سلسلہ ہے، لہذا اس جماعت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے ایم کیو ایم پاکستان بنا کر ان 35 سالوں کی سیاست کو ہر طرح کی تفریق سے پاک رکھتے ہوئے عدم تشدد کی پالیسی کو اختیار کیا ہے اور اس سب کے بعد میں اور میری جماعت کا کوئی کارکن نہیں چاہے گا کہ ایم کیو ایم کے نام میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی جائے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کوئی بھی پارٹی بُری نہیں ہوتی، مگر اس میں اچھے اور بُرے لوگ ضرور ہوسکتے ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ان بُرے لوگوں سے چھٹکارا حاصل کریں'۔

پی ایس پی سے دوبارہ اتحاد پر نظرثانی

اس سوال پر کہ اگر ایم کیو ایم پاکستان کا نام تبدیل نہیں ہوگا تو پھر حال ہی میں آپ نے پی ایس پی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا وہ سب کیا تھا ؟ تو فاروق ستار کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہوا وہ عام انتخابات کے تناظر میں ایک سیاسی اتحاد قائم کرنا تھا، لیکن ہمارے دل میں اس اتحاد کا انتخابی نشان پتنگ ہی تھا، مگر مصطفیٰ کمال اگر کچھ تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو وہ ان کی اپنی خواہش ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ایس پی کے ساتھ دوبارہ اتحاد پر ان کی جماعت نظرِ ثانی کررہی ہے اور ساتھ ہی اس پیشکش پر بھی مشاورت کررہی ہے کہ جس میں ہم نے مصطفیٰ کمال کو متحدہ پاکستان میں آنے کی دعوت دی تھی۔

مزید پڑھیں: فاروق ستار نے سیاست چھوڑنے کا فیصلہ واپس لے لیا

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں دونوں جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے سلسلے میں جن نکات پر بات ہوئی، ان پر ہاں یا نہ کہنے کا ہمیں پورا حق حاصل ہے، مگر اس سے پہلے کہ آگے کی حکمتِ عملی پر بات ہوتی، مصطفیٰ کمال نے دو ہی دن بعد نئی بحث کو چھیڑ کر پوری صورتحال کو ایک الگ تاثر دینے کی کوشش کی۔

اس سوال پر کہ جس طرح سے مصطفیٰ کمال کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ 23 اگست کی رینجرز ہیڈکواٹرز میں ایم کیو ایم پاکستان بنی تو کیا یہ بات درست ہے؟ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ اگرچہ مجھ پر دباؤ تھا، کیونکہ اب تک بہت سے کارکنان لاپتہ ہیں، جن کو ہمیں بازیاب کروانا ہے، لیکن اس بات کی تردید یا تصدیق خود ڈی جی رینجرز یا فوج خود اپنی پریس ریلز کے ذریعے کرسکتی ہے، کیونکہ بطور ایک سیاستدان مجھے اپنے ملک کی سلامتی اور ریاستی اداروں کا بہت احترام ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی اتحاد کی ناکامی کے بعد جو خط میں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو لکھا تھا، وہ بھی کسی صورت لیک نہیں کرسکتا اور نہ ایسا ہونے دوں گا، کیونکہ جو باتیں اُس میں لکھی گئیں وہ انتہائی اہم ہیں۔

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ 'میں نے صرف ایک اشارہ دیا تھا کہ میں کراچی ہو یا پاکستان، ہم کسی صورت بھی انجینئرڈ سیاست کو نہیں ہونے دیں گے'۔

مشرف نئی جماعت بنانا چاہتے تھے

سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے سیاسی کرئیر اور ایم کیو ایم میں شامل ہونے سے متعلق خبروں پر بات کرتے ہوئے متحدہ پاکستان کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کوئی بھی پاکستانی ہو اسے کسی بھی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کا پورا حق ہوتا ہے، لہذا مشرف اگر ہمارے ساتھ مخلص رہے ہیں تو ہم انہیں ایم کیو ایم پاکستان کا حصہ بننے پر خیر مقدم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی گذشتہ سال نومبر میں پرویز مشرف کے ساتھ ایک ملاقات ہوئی تھی جس میں کراچی کے موجوہ سیاسی حالات اور عام انتخابات 2018 کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا۔

ان کہنا تھا کہ 50 منٹ تک جاری رہنے والی ملاقات کے دوران مشرف نے مجھے کہا کہ میں اور مصطفیٰ کمال اپنی جماعتوں کو چھوڑ دیں اور پھر ہم تینوں مل کر ایک نئی جماعت بنائیں گے، لیکن میں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ 'ایسا ممکن ہی نہیں کہ اتنا بڑا فیصلہ ہم چند لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ایک بند کمرے میں کر لیں اور زمینی حقائق کچھ اور ہوں'۔

آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ مہاجروں کو اب تک ان کا اصل حق نہیں ملا اور ان حالات کو دیکھتے ہوئے وہ لوگ اس مرتبہ بھی متحدہ پاکستان کو ہی ووٹ دیں گے، جن کی امیدیں اس جماعت کے ساتھ وابستہ رہی ہیں۔

واضح رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور پاک سرزمین پارٹی کے صدر مصطفیٰ کمال نے 8 نومبر کو مشترکہ پریس کانفرنس میں سیاسی اتحاد کا اعلان کیا تھا۔

مصطفیٰ کمال کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ’ایک عرصے سے پی ایس پی اور ایم کیو ایم میں مشاورتی عمل جاری تھا، لیکن اب فیصلہ کیا ہے کہ مل کر سندھ بالخصوص کراچی کے عوام کی خدمت کی جائے اور بہترین ورکنگ ریلیشن شپ اور سیاسی اتحاد قائم کیا جائے۔‘

پریس کانفرنس کے دوران ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ سیاسی اتحاد عارضی اور جزوی عمل نہیں، آئندہ انتخابات میں ایک نام، ایک نشان اور ایک منشور کو لے کر جائیں گے، آئندہ ملاقاتوں میں فریم ورک کو تشکیل دیں گے، اتحاد میں دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی دعوت دیں گے کیونکہ سندھ اور کراچی کی خدمت کے لیے دیگر جماعتوں کو بھی ساتھ ملانا ہوگا، جبکہ امید ہے اب ہمارے سیل دفاتر واپس مل جائیں گے۔‘

مصطفیٰ کمال نے فاروق ستار کے سیاسی اتحاد کے اعلان کی توثیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک انتخابی نشان کے ساتھ پارٹی کے لیے تیار ہیں، ہم ایک نشان، نام اور منشور پر مل کر ایسی قیادت نکالنا چاہتے ہیں جو پاکستان کی آواز بنے۔‘

دونوں جماعتوں کے اتحاد کے ایک روز بعد ہی فاروق ستار، مصطفیٰ کمال پر خوب گرجے برسے اور اپنی رابطہ کمیٹی سے بھی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی کی سربراہی اور سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا۔

تاہم اس اعلان کے ایک گھنٹے کے اندر ہی انہوں نے اپنی والدہ کی خواہش پر سیاست چھوڑنے کا فیصلہ واپس لے لیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’متحدہ، پی ایس پی اتحاد میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ‘

بعدازں، اگلے روز پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے اپنی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی جماعت اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے اتحاد کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا۔

ایم کیو ایم سے اتحاد سے قبل متحدہ رہنماوں کے ساتھ ہونے والے اجلاس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پی ایس پی کے چیئرمین نے کہا کہ مجھے ڈاکٹر فاروق ستار نے بلایا تھا، وہ اجلاس شروع ہونے سے قبل ہی موجود تھے اور اب تک جو کچھ بھی ہوا وہ سب ڈاکٹر فاروق ستار کی خواہش پر ہوا۔

ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے طنزیہ طور پر کہا کہ ہم خبروں کو لیک کرنے والے نہیں بلکہ صاف صاف بات کرنے والے لوگ ہیں، ہم مہاجر قوم کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ملک کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔

موجودہ چیف آف جنرل اسٹاف اور سندھ رینجرز کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل بلال اکبر کا نام لے کر پی ایس پی سربراہ نے دعویٰ کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان ہم پر اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہونے کا الزام لگا رہی ہے حالانکہ ایم کیو ایم پاکستان تو پیدا ہی ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رینجرز سندھ کے دفتر میں ہوئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں