واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اپنی پہلی خارجہ پالیسی میں پاک-بھارت ایمٹی تنازع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ایٹمی اثاثوں کا ذمہ دار اور نگہبان ہے۔

نئی پالیسی میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اگر پاکستان، امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو مزید تیز کرنا ہوگا۔

وائٹ ہاؤس سے جاری نئی پالیسی کے اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ اپنے ایٹمی اثاثوں کا ذمہ دار اور نگہبان ہے تو امریکا اس اقدام کو سراہے گا۔

نئی پالیسی میں پاک-بھارت ایٹمی تنازع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی قسم کے فوجی تنازع کی صورت میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خدشہ ہے۔

پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کے خفیہ ٹھکانوں کی موجودگی کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ امریکا کو پاکستان کی حدود سے کام کرنے والے دہشت گردوں اور عسکریت پسند گروہوں سے خطرات کا سامنا ہے جس کے لیے ہم پاکستان سے اصرار کریں گے کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔

مزید پڑھیں: امریکا، پاکستان کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف یک طرفہ اقدام اٹھانے کا خواہشمند

ٹرمپ انتظامیہ نے اسلام آباد کو دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کی مدد پر شراکت داری ختم کرنے کا یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان پر زور دیں گے کہ وہ اہلکاروں، ارکان اور حکام کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف کارروائیاں تیز کرے۔

دستاویزات میں اسلام آباد کو بتایا گیا کہ خطے میں دہشت گردوں کی جانب سے امریکی مفادات کے حوالے سے نقصان امریکی سرزمین اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کو متاثر کرسکتا ہے۔

انتظامیہ کے مطابق امریکا سرحدی دہشت گردی کو روکنا چاہتا ہے جس سے فوجی اور ایٹمی کشیدگی کا امکان اٹھتا ہے، اس کے علاوہ امریکا پاکستان سے ایٹمی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کا دہشت گردوں کے ہاتھوں سے استعمال روکنے کے وعدے کا خواہش مند ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں امریکی مفاد صرف دہشت گردی کی حد تک محدود نہیں، ہم ایسا پاکستان چاہتے ہیں جو افغانستان کی خود مختاری اور استحکام کو برباد کرنے میں ملوث نہیں ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو تعمیر کریں گے اور پاکستان کی جانب سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خاتمے کے ہمارے مقصد میں امریکا کی مدد کرے گا۔

واضح رہے کہ نئی پالیسی طالبان، القاعدہ، داعش اور دیگر دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں افغان حکومت اور سیکیورٹی فورسز کی حمایت کرنے کے لیے امریکی عزم کا اظہار کرتی ہے۔

پالیسی میں کہا گیا کہ ہم افغان فورسز کی لڑنے کی استطاعت کو مضبوط کریں گے تاکہ وہ طالبان کو یہ بتا سکیں کہ وہ جنگ نہیں جیت سکتے اور امن قائم کرنے کے لیے سفارتی کوششیں بروئے کار لانا ضروری ہے۔

نئی پالیسی میں چین کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تمام جنوبی ایشیائی ریاستوں کی مدد کرنے کا وعدہ کیا گیا، ساتھ ہی کہا گیا کہ چین کے خطے میں اثر و رسوخ میں اضافے کے باعث ہم جنوبی ایشیائی ریاستوں کی حاکمیت برقرار رکھنے میں مدد کریں گے۔

امریکا کی نئی پالیسی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بھارت پر بہت انحصار کرتی ہے، پالیسی میں کہا گیا کہ ہم بھارت کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط کریں گے اور بحر ہند کی سیکیورٹی اور خطے میں وسیع پیمانے پر ان کی قیادت کے کردار کی حمایت کرتے رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا پاکستان پر دہشتگرد قابض ہوسکتے ہیں؟ امریکا کی نئی تشویش

امریکا کا کہان تھا کہ وسطی اور جنوبی ایشیا کے معاشی انضمام کی حوصلہ افزائی کے ذریعے، ہم خوشحالی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دیں گے جبکہ خطے میں بھارت کی اقتصادی امداد بڑھانے کو سراہا جائے گا۔

ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق لگتا ہے کہ وسطی ایشیا کی ریاستیں حریف قوتوں کے غلبے کے خلاف لچک رکھتی ہیں اور عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں کی مزاحمت کرتی ہیں اور اصلاحات کو ترجیح دیتی ہیں۔

اسی وجہ سے ہم وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ کام کریں گے تاکہ خطے تک رسائی کے لیے ہماری انسداد دہشت گردی کی کوششوں کی حمایت کی جائے۔


یہ خبر 19 دسمبر2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں