اسلام آباد: حکومت اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے اتحادیوں کے درمیان فاٹا اصلاحات پر ہونے والی پہلی براہ راست ملاقات بھی بے نتیجہ ثابت ہوئی اور حکومت فاٹا کا خیبرپختونخوا سے انضمام اور اعلیٰ عدالتوں کی ان علاقوں تک رسائی کے معاملے پر کوئی حل نکالنے میں ناکام رہی۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت حکومتی ٹیم اور جے یو آئی (ف) کے سپریم جرگے کے درمیان 2 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی ملاقات کے حوالے سے جرگے کے ایک رکن نے اعلان کرتے ہوئے ڈان کو بتایا کہ فاٹا کے معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور ان کے تحفظات جوں کے توں برقرار ہیں۔

حکومتی ٹیم میں وزیر اعظم کے ہمراہ وفاقی وزیر عبدالقادر لیفٹننٹ جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ، وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر اعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر ظفر اللہ خان اور منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سرتاج عزیز موجود تھے۔

واضح رہے کہ سرتاج عزیز رواں سال سے فاٹا اصلاحات کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی کی سربراہی کر رہے تھے۔

مزید پڑھیں: فاٹا اصلاحات پر وزیر اعظم اور آرمی چیف کی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات

خیال رہے کہ وزیر اعظم کی جرگہ کونسل کے ارکان سے ملاقات اس وقت سامنے آئی جب وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے پارلیمان میں اعلان کیا تھا کہ حکومت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کے فاٹا تک توسیع کے بل 2017 کو جمعرات کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

تاہم حکومت میں موجود ذرائع کے مطابق جرگے سے ملاقات کے بعد اس بات کے بہت کم امکانات موجود ہیں کہ مجوزہ بل اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے سرکاری ویب سائٹ پر جمعرات کے اجلاس کے لیے جاری کیے گئے 5 نکاتی ایجنڈے میں اس بل کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔

ملاقات کے بارے میں ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر ظفر اللہ خان نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ اتفاق رائے قائم کرنے میں ناکام رہے لیکن دعویٰ کیا کہ وہ فاٹا کے معاملے پر اتفاق رائے کے قریب ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ملاقات بہت خوشگوار ماحول میں ہوئی اور دونوں جانب سے ہر کسی کے دلائل کو کھلے دماغ کے ساتھ سنا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جرگے نے کچھ سفارشات دی ہیں، جن پر غور کیا جاسکتا ہے اور ان سفارشات میں کچھ بہت اچھی ہیں۔

ظفراللہ خان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب سے 100 فیصد لچک نہیں دکھائی گئی، جرگے کے ارکان کو سپریم کورٹ کی فاٹا تک رسائی کے بل پر بریفنگ دی تو انہوں نے فاٹا کے خیبر پختونخوا سے انضام کے معاملے پر اپنا نقطہ نظر پیش کردیا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اب اس بات کا امکان نہیں کہ بل کو جلدی پیش کیا جائے گا کیونکہ وہ ایک خوشگوار ماحول کو خراب نہیں کرنا چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ جرگے کا خیال ہے کہ پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) کی توسیع فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضمام کی جانب ایک قدم ہے لیکن انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے اختیارات میں توسیع پر کوئی اعتراض نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فاٹا اصلاحات بل کی منظوری میں تاخیر سے دہشت گردی بڑھے گی، عمران خان

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک متنازع معاملہ ہے اور اس پر جلدی نہیں دکھانا چاہتے اور اگر یہ بڑا مسئلہ نہیں تھا تو کیوں تین فوجی حکومتوں سمیت ماضی کی حکومتیں اسے حل نہیں کر پائیں۔

ریفرنڈم کے امکانات

ذرائع کا کہنا تھا کہ جرگے نے خواہش ظاہر کی کہ قبائلی علاقوں میں ریفرنڈم ہونا چاہیے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ قبائلی فاٹا کا خیبرپختونخوا سے انضمام یا الگ صوبہ چاہتے ہیں۔

یاد رہے کہ منگل کو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فاٹا اصلاحات کے معاملے پر مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی تھی۔

واضح رہے کہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضام پر جے یو آئی (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کی جانب سے مخالفت کی جارہی ہے۔

اس سے قبل اپوزیشن جماعتوں نے فاٹا اصلاحات بل پیش نہ کرنے پر گزشتہ روز بھی قومی اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ جاری رکھا۔

یاد رہے کہ ایک دن قبل اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ارکان اسمبلی کو یقین دہانی کرائی تھی کہ بل کے مسودے کو بدھ کو پیش کیا جائے گا، جس پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا تھا کہ یہ دیکھ کر حیرانگی ہوئی کہ آج کے ایجنڈے میں قانون سازی کا کوئی ذکر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بتایا جارہا ہے کہ اس بل کو اب جمعرات کو پیش کیا جائے گا، اگر یہ پیش کردیا جاتا ہے تو اپوزیشن اس کا استقبال کرے گی اور اس کی منظوری کی حمایت کرے گی لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہم اس خالی ایوان میں بیٹھنا نہیں چاہیں گے۔

بعد ازاں وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے سینیٹر شبلی فراز کی جانب سے توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا اور اسے سابق حکومتوں کی مجرمانہ غفلت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان حکومتوں کی جانب سے قبائلیوں کی غلطیوں کو ختم کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔

انہوں نے کہا کہ فاٹا میں انتظامیہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن ( ایف سی آر) کے ذریعے چلائی جارہی ہے اور لوگوں کو کسی عدالت میں اپیل دائر کرنے کے حق کے بجائے ظالمانہ ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: فاٹا اصلاحات پر محمود خان اچکزئی نے نیا فارمولا پیش کردیا

وفاقی وزیر نے اعلان کیا کہ حکومت سرتاج عزیر کی زیر صدارت بنائی گئی کمیٹی کی پیش کردہ تمام سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا اور تمام سفارشات پر عمل کے لیے وزیر اعظم کی زیر صدارت دوسری کمیٹی نے ٹیم لائن کو حمتی شکل دے دی ہے۔

فاٹا اصلاحات پر صرف دو اتحادیوں کو خوش کرنے کے حوالے سے کی گئی تنقید پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت اپنے اتحادیوں کو منانے کی اب بھی کوشش کر رہی ہے۔


یہ خبر 21 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں