بھارت کی ریاست آندھرا پردیش میں مسجد کے مؤذن کو قتل کرکے، قرآن شریف کی بے حرمتی کیے جانے اور مسجد میں توڑ پھوڑ کیے جانے کا واقعہ پیش آیا ہے۔

واقعے کو 3 دن گزرجانے کے باوجود بھارت کی یونین حکومت نے معاملے کا نوٹس نہیں لیا، اور نہ ہی ریاستی حکومت نے واقعے کی اعلیٰ تحقیقات کے لیے کوئی احکامات جاری کیے ہیں۔

واقعہ گزشتہ ہفتے 29 دسمبر کو پیش آیا۔

بھارتی ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد سے بھارت کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کے رکن اسدالدین اویسی نے ٹوئیٹ کی کہ آندھرا پردیش کے شہر لالاچیرووو راجمندھری کی اے پی نورانی مسجد کے پیش امام کو قتل کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: مشتعل ہجوم کے تشدد سے مسلمان نوجوان ہلاک

اسدالدین اویسی نے مزید لکھا کہ مؤذن محمد فاروق صاحب کو قتل کرکے، قرآن شریف کی بے حرمتی کی گئی، جب کہ مسجد کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔

رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس معاملے پر متعلقہ پولیس افسر سے بات بھی کی، ساتھ ہی انہوں نے ریاست آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ این چندرا بڈو نیڈو کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو گرفتار ہونا چاہیے۔

اسی واقعے کے حوالے سے نیو انڈین ایکسپریس نے اپنی خبر میں بتایا کہ مسجد میں قتل کیے گئے مؤذن کا تعلق بھارت کی ریاست بہار سے تھا، وہ چند ماہ قبل ہی مسجد میں بطور مؤذن مقرر ہوئے تھے۔

خبر کے مطابق واقعے کے بعد مسلمانوں نے محمد فاروق کے قتل کے خلاف مظاہرہ بھی کیا، جس وجہ سے کئی گھنٹوں تک ٹریفک معطل رہی۔

مزید پڑھیں: بھارت: گائے لے جانے والے 2 مسلمان تشدد کے بعد قتل

دوسری جانب پولیس نے مقدمہ درج کرکے واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہے، تاہم آخری اطلاعات تک پولیس کو کوئی خاطر خواہ کامیاب نہیں ہوئی تھی۔

علاوہ ازیں پولیس نے علاقے میں دفعہ 144 بھی نافذ کردیا ہے۔

واقعے کی تاحال دیگر تصدیقی تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں، تاہم واقعے سے متعلق خیال کیا جا رہا ہے کہ انتہاپسندوں کی جانب سے فرقہ وارانہ فسادات کی کوشش کی گئی ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں