اسلام آباد: پنجاب کے چائلڈ رائٹس پروٹیکشن کی رکن صبا صادق کا کہنا ہے کہ قصور میں کمسن بچی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد ہم جن 11 کیسز پر کام کر رہے ہیں ان میں ہماری محنت صفر ہوگئی ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام ’نیوز وائز‘ میں قصور میں کمسن بچی کے مبینہ زیادتی کے بعد قتل کے واقعے پر بات کرتے ہوئے صبا صادق نے کہا کہ ’مجھے ذاتی طور پر اس واقعے کا دکھ ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے بھی اس پر گہرے رنج کا اظہار کیا گیا، یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی اس طرح کے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس سے قبل پیش آنے والے واقعات کے بعد میں خود قصور گئی اور انتظامیہ و پولیس سے بات کی اور وزیر اعلیٰ کے حکم پر وہاں چائلڈ پروٹیکشن یونٹ قائم کیا، تاکہ اگر والدین کو پولیس یا انتظامیہ سے مدد لینے میں کسی قسم کی کوئی دشواریپیش آئے تو ہم ان کی مدد کر سکیں۔‘

مزید پڑھیں: قصور: کمسن بچی کے مبینہ ریپ، قتل پر احتجاج، توڑ پھوڑ

پروگرام میں ساحل کے میڈیا مینیجر ممتاز گوہر نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سال 2016 میں ملک بھر میں 100 سے زائد بچوں کو اغواء کے بعد زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا، جبکہ سال 2017 میں یہ تعداد 62 رہی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کے معاملات میں اگر ہم اعداد و شمار کو سامنے رکھیں تو 2015 میں قصور اسکینڈل کو ملا کر 451 کیسز صرف قصور سے سامنے آئے جبکہ 2016 میں قصور میں یہ واقعات کم ہو کر 141 ہو گئے تھے، اسی طرح 2017 میں قصور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 129 کیس سامنےآئے۔

معاشرتی ذمہ داری کے حوالے سے ممتاز گوہر نے کہا کہ ’سب سے پہلی ذمہ داری والدین کی ہوتی ہے، انہیں چاہیے کہ بچوں کو سکھائیں کہ کس سے بات کرنی ہے اور کس سے نہیں، اس کے بعد اسکول کے اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو بتائیں کہ انہیں خود کو کس طرح محفوظ رکھنا ہے، اس کے بعد پولیس، وکلاء اور دیگر اداروں کی ذمہ داری آتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی میں بچی ریپ کے بعد قتل، 2 ملزمان گرفتار

واضح رہے کہ قصور میں 7 سالہ زینب کو اغوا کرنے کے بعد قتل کردیا گیا تھا جبکہ اس واقعے کے بعد علاقہ مکینوں نے سخت احتجاج کیا اور ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا۔

اس موقع پر مشتعل مظاہرین کی پولیس سے جھڑپ بھی ہوئی، اس دوران مبینہ طور پر فائرنگ سے 2 افراد ہلاک ہوگئے، جس کے بعد کشیدہ صورتحال کے پیش نظر انتظامیہ نے رینجرز طلب کرلی تھی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز قصور میں شہباز خان روڈ پر کچرے کے ڈھیر سے بچی کی لاش ملی تھی، جسے مبینہ طور پر زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: کراچی میں 17 سالہ لڑکی ریپ کے بعد قتل

بچی کی لاش ملنے کے بعد اسے پوسٹ مارٹم کے لیے ڈسٹرکٹ ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں اس کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد لاش کو ورثاء کے حوالے کردیا گیا تھا، تاہم اس حوالے سے رپورٹ میں بچی کے ساتھ مبینہ ریپ کی اطلاعات ہیں۔

دوسری جانب اس واقعے کے بعد قصور کی فضا سوگوار ہے، ورثاء، تاجروں اور وکلاء کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا اور تاجروں نے مکمل طور پر شٹر ڈاؤن کرکے فیروز پور روڈ کو بلاک کردیا جبکہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن (ڈی بی اے) کی جانب سے بدھ کو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Farrukh Jan 11, 2018 07:51am
I agree with Saba. Education stepwise, parents, religious scholars and teachers. Pakistan Zindabaad