بھارت میں سپریم کورٹ کے 4 ججز کی جانب سے چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کرنے کے معاملے کو حل کرنے کے لیے بار کونسل آف انڈیا (بی سی آئی) بھی میدان میں آگیا۔

ججز کی بغاوت اور خدشات کو ختم کرنے اور تنازع کو حل کرنے کے لیے بی سی آئی نے اعلیٰ وکلاء پر مشتمل 7 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی، جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت ان چار ججز سے بھی ملاقات کرے گی، جنہوں نے چیف جسٹس پر الزامات لگائے۔

دیپک مشرا 2018 کے آخر تک چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات رہیں گے—فوٹو: انڈین ایکسپریس
دیپک مشرا 2018 کے آخر تک چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات رہیں گے—فوٹو: انڈین ایکسپریس

خیال رہے کہ 2 دن قبل 12 جنوری کو بھارتی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے 4 حاضر سروس اعلیٰ ججز نے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پریس کانفرنس کی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق پہلی مرتبہ اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف سپریم کورٹ کے سینئر ججز جسٹس جے چلامیشور، جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن بی لوکر اور جسٹس کورین جوزیف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے تنبیہ کی کہ چیف جسٹس کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

چاروں ججز نے بتایا کہ وہ اس پریس کانفرنس کے لیے مجبور ہوئے کیوں کہ چیف جسٹس صاحب نے ان کے خدشات سننے سے انکار کردیا تھا۔

اپنی پریس کانفرنس میں چاروں ججز نے چیف جسٹس کے خلاف مواخذے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ وہ مواخذے کی کارروائی لانے والے نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی ججز نے ملک کے چیف جسٹس کی صداقت پر سوالات اٹھا دیئے

تاہم چاروں ججز نے بتایا کہ وہ عوام کو یہ بتانا فرض سمجھتے تھے کہ اس وقت سپریم کورٹ کی انتظامیہ ٹھیک سے کام نہیں کر رہی اور ملک میں جمہوریت کی بقا کے لیے آزاد عدلیہ کی ضرورت ہے۔

انہوں نے خود بھی اپنے اس عمل کو ایک غیر معمولی واقعہ قرار دیا۔

انہوں نے چیف جسٹس پر جانبداری اور اہم کیسز سینئر کے بجائے جونیئر ججز کو دینے کا الزام بھی لگایا۔

چاروں ججز نے چیف جسٹس کے خلاف خط بھی لکھا، جس کے مندرجات سے انہوں نے آگاہ نہیں کیا۔

چاروں ججز کی جانب سے حیران کن انکشافات کے بعد سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن (ایس سی بی) نے بھی گزشتہ روز ان کی حمایت کی۔

ایس بی سی کے رہنماؤں نے بھی ججز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس دیپک مشرا نے کئی اہم کیسز نہایت جونیئر ججز کو دے رکھے ہیں، جب کہ ایک سیاسی پارٹی کے خلاف فیصلہ سنانے سے قبل ہلاک ہونے والے جج بی ایچ لویا کا کیس بھی ٹھیک طرح سے نہیں چلایا جا رہا۔

سپریم کورٹ کے 4 ججز پریس کانفرنس کرتے ہوئے—فوٹو: اسکرول
سپریم کورٹ کے 4 ججز پریس کانفرنس کرتے ہوئے—فوٹو: اسکرول

خیال رہے کہ بی ایچ لویا بھارت کی خفیہ ایجنسی سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کی خصوصی عدالت کے جج تھے، جو 2014 میں اچانک دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوئے تھے۔

تاہم ان کے خاندان اور قریبی ذرائع نے ان کے موت کو ہلاکت قرار دیا تھا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بی ایچ لویا پولیس انکاؤنٹرمیں ہلاک ہونے والے صلاح الدین شیخ نامی جرائم پیشہ شخص کے کیس کی سماعت کر رہے تھے۔

مزید پڑھیں: ججز کی بغاوت: سپریم کورٹ بار کی بھی بھارتی ججز کی حمایت

صلاح الدین شیخ ریاست گجرات میں قتل عام سمیت ہتھیاروں کی اسمگلنگ میں ملوث تھے، مبینہ طور پراس کا تعلق بھارتی جنتہ پارٹی (بی جے پی) سے بھی تھا۔

بی ایچ لویا کا کیس بھی ٹھیک طرح سے نہ چلنے پر سپریم کورٹ کے ججز نے چیف جسٹس کو تنقید کا نشانہ بنایا، اب ملک کی اعلیٰ عدالت کے ججز کے اختلافات ختم کرانے کے لیے بار کونسل آف انڈیا کردار ادا کرتے ہوئے ان کے درمیان صلح کرائے گا۔

جسٹس بی ایچ لویا 2014 میں ہارٹ اٹیک ہونے سے چل بسے تھے—فوٹو: اسکرول
جسٹس بی ایچ لویا 2014 میں ہارٹ اٹیک ہونے سے چل بسے تھے—فوٹو: اسکرول

ہندوستان ٹائمز کے مطابق ججز کا تنازع حل کرانے کے لیے بی سی آئی کا 7 رکنی وفد 14 جنوری کو رات گئے تک اعلیٰ عدالت کے تمام ججز سے ملاقات کرے گا۔

خبر کے مطابق بی سی آئی کا وفد صدر مینن کمار کی سربراہی میں سب سے پہلے سپریم کورٹ کے جج جے چلامیشور سے ملاقات کرے گا، یہ ان چار ججز میں سے ایک ہیں، جنہوں نے چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کی۔

مینن کمار کے مطابق بی سی آئی کا وفد تمام ججز سے ملنے کے بعد چیف جسٹس دیپک مشرا سے بھی ملاقات کرکے معاملے کو آئینی و قانونی طریقے سے حل کرے گا۔

اس سے قبل بار کونسل انڈیا اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلاء نے گزشتہ دن یہ بیانات دیے تھے کہ ججز کے درمیان ہونے والے اختلافات سے کسی کو سیاسی فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

وکلاء کا کہنا تھا کہ ججز تنازع کا معاملہ وہ خود ہی حل کریں گے، کسی کو بھی ان کے معاملے کو حل یا خراب کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں