لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے 17 جنوری کو ہونے والے دهرنے کو روکنے کے حوالے سے دائر درخواست پر متعلقہ حکام کو عدالت میں طلب کرلیا جبکہ وفاقی حکومت کو جواب داخل کرانے کی ہدایت جاری کردی۔

ابتدا میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ نے (پی اے ٹی) سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے صوبائی دارالحکومت میں 17 جنوری کو ہونے والے دھرنے کو روکنے کے حوالے سے دائر درخواست پر جسٹس فرخ عرفان خان کی سربراہ میں بینچ تشکیل دیا جس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس شاہد کریم بهی شامل تھے۔

تاہم سید منصور علی شاہ کے اس اعلان کے بعد سماعت سے قبل جسٹس فرخ عرفان خان نے سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذاتی وجوہات کی بنیاد پر اس کیس کی سماعت نہیں کرسکتے۔

بعدِ ازاں لاہور ہائی کورٹ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں جسٹس شاہد جمیل خان اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل دوبارہ تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے آج ہی دھرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی اور تمام متعلقہ حکام عدالت میں طلب کرتے ہوئے سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی جبکہ وفاقی حکومت کو اس حوالے سے اپنا جواب داخل کرانے کی ہدایت جاری کردی.

اس سے قبل سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سلسلے میں ہونے والے دھرنے کو رکوانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں متفرق درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

خیال رہے کہ پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سیمت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے 17 جنوری سے پنجاب حکومت کے خلاف دھرنے کا آغاز کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں دھرنے کے خلاف درخواست ایڈووکیٹ اے کے ڈوگر نے شہری غلام یاسین کی جانب سے دائر کی جس میں وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت کے خلاف دھرنے کا اعلان غیر آئینی ہے۔

مزید پڑھیں: کیا عوامی تحریک کے جلسے میں مسلم لیگ کے مخالفین ایک اسٹیج پر آسکیں گے؟

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھرنے کا اعلان آئین کے آرٹیکل 124 اے کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے دھرنے سے ملک میں انتشار پھیلنے کا خدشہ ہے جبکہ اس کی وجہ سے شہریوں کی زندگی بھی مفلوج ہو جائے گی۔

درخواست گزار نے لاہور ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ عدالت سیاسی جماعتوں کو 17 جنوری کو دھرنا دینے سے روکنے کا حکم دیا جائے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ آل پارٹی کانفرنس کے بعد بنائی گئی کمیٹی نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ کل 17 جنوری سے ملک بھر میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور اسے جماعت کے عہدہ دینے کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔

یہ اعلان وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر قانون کو 7 جنوری تک استعفیٰ دینے کی ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد سامنے آیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحریک کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں'

کمیٹی کے کئی گھنٹے طویل اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ ڈیڈ لائن گزر چکی ہے اور ان کے مطالبات بھی بدل چکے ہیں اب تمام مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو جانا ہوگا، چاہے وہ جہاں بھی ہوں۔

واضح رہے کہ اس احتجاجی جلسے میں مسلم لیگ (ن) کی دو اہم سیاسی مخالف جماعتیں، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنی اعلیٰ قیادت کے ہمراہ پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے منعقدہ 17 جنوری کے جلسے میں ایک اسٹیج پر آنے کے امکانات معدوم نظر آرہے ہیں۔

احتجاجی دھرنا ایک روزہ ہونے کا عندیہ

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان عوامی تحریک کے ذرائع کا کہنا تھا کہ پی اے ٹی کی ترجیحات اب بھی یہی ہیں کہ جلسے کو ایک روزہ رکھا جائے جس کی کئی وجوہات ہیں لیکن اس پر حتمی فیصلہ کمیٹی کی جانب سے لیا جائے گا جو جلسے کے روز رات کو کنٹینر میں مل کر فیصلہ کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ عوامی تحریک کے سربراہ کی جانب سے چارٹر آف ڈیمانڈ کے پیش کیے جانے کا امکان ہے جسے تمام اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اتفاق رائے کے ساتھ تیار کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف قتل کا مقدمہ ہونا چاہیے، آصف زرداری

ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے سربراہان اسٹیج پر طاہر القادری کے ہمراہ ہوں گے جبکہ عمران خان، سراج الحق، شیخ رشید اور گجرات کے چوہدریوں نے اپنی شرکت کے حوالے سے بھی رضامندی ظاہر کردی ہے۔

دھرنے کے پیش نظر تعلیمی ادارے بند رکھنے کا فیصلہ

دوسری جانب لاہور کے مال روڈ پر اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے پیش نظر محکمہ تعلیم نے مال روڈ سے ملحقہ تعلیمی ادارے بند رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔

فیصلے کے مطابق مال روڑ اور ملحقہ سڑکوں پر تمام اسکول اور کالجز 2 دن کے لیے بند کئے جائیں گے۔

محکمہ تعلیم کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں بتایا گیا کہ اسکول بند رکھنے کا فیصلہ بچوں کو احتجاج کے باعث پریشانی سے بچنے کے لیے کیا گیا۔

صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ احتجاج کی صورتحال دیکھ کر کیا جائے گا۔

رانا ثناء اللہ اور شہباز شریف کے بیان حلفی کے لیے درخواست

ادھر لاہور ہائی کورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں شہباز شریف رانا ثناءاللہ اور دیگر کے بیان حلفی کی نقول حاصل کرنے کے لیے بھی درخواست دائر کی گئی۔

درخواست کو ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے سانحہ ماڈل کے متاثرین قیصر اقبال اور دیگر کی جانب سے دائر کیا۔

درخواست میں انہوں نے موقف اپنایا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں وزیراعلی پنجاب، وزیر قانون اور دیگر کے بیان حلفی کی نقول فراہم نہیں کی جارہی۔

یہ بھی پڑھیں: ’پنجاب حکومت طاہر القادری کی مدد کیلئے تیار ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کو بیان حلفی کی نقول کے لیے متعدد خط لکھے گئے جبکہ چیف سیکریٹری پنجاب بے بیان حلفی کی نقول فراہم کرنے سے معذرت کرتے ہوئے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے بھی جوڈیشل انکوائری میں بیان حلفی کی نقول فراہم کرنے سے معذرت کر لی ہے۔

درخواست گزار نے لاہور ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ عدالت سانحہ ماڈل ٹائون کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں شہباز شریف رانا ثناءاللہ اور دیگر کے بیان حلفی کی نقول فراہم کرنے کا حکم دے۔

فیصلہ کن احتجاج کا آغاز

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی اے ٹی کے چیئرمین ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ 17 جنوری سے فیصلہ کن احتجاج کا آغاز کیا جارہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کل کے احتجاج میں ایک کنٹینر اور ایک اسٹیج ہوگا جہاں پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی موجود ہوں گے۔

طاہر القادری نے بتایا کہ دیگر جماعتوں کے ساتھ تمام امور اتفاقِ رائے سے طے پا چکے ہیں، تاہم آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان بھی جلد کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ کل کا احتجاج دوپہر 12 بجے شروع ہوگا جس کی اطلاع تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان کو دے دی گئی ہے.

تبصرے (0) بند ہیں