وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ تعلقات میں توازن چاہتے ہیں لیکن پاکستان کسی صورت قومی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرے گا جبکہ چین نے پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو افغانستان تک توسیع کی خواہش کا اظہار کردیا ہے۔

خواجہ آصف نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ امریکا سے تعلقات ابھی اچھے نہیں لیکن امریکا کے ساتھ تعلقات میں توازن چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے امریکی سیاسی و فوجی قیادت کو بتا دیا ہے کہ امریکا اپنی ناکامی کا الزام پاکستان کو نہ دے، ہمیں کوئی امداد نہیں چاہیے، پاکستان کسی صورت قومی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

دہشت گردی سے متعلق فتوے کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ ریاست جہاد یا جہادی تنظیموں کو قومی دھارے میں نہیں لا رہی بلکہ خود کش حملہ یہاں ہو یا چاند پر وہ حرام ہے تو حرام ہے اور جو بھی جہادی تنظیم پاکستان سے کہیں بھی کام کرے گی وہ فتویٰ کے تحت غلط ہے۔

'چین کی سی پیک کی افغانستان تک توسیع کی خواہش'

کمیٹی کو بریفنگ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ چین نے سی پیک کو افغانستان تک توسیع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور پاکستان بھی چین کی اس منصوبہ بندی کا حامی ہے جبکہ یہ معاملہ پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان سہہ فریقی اجلاس میں بھی سامنے آیا تھا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان مہاجرین کو مزید پناہ دینا ممکن نہیں ہے جبکہ پاکستان نے سرحدی انتظام کے لیے باڑ بھی لگائی ہے۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان سے بھی ایسے ہی اقدامات چاہتے ہیں کیونکہ پاک-افغان سرحد کو 60 سے 70 ہزار لوگ روزانہ عبور کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کے بھیس میں کافی دہشت گرد بھی آتے ہیں، افغان مہاجرین کو ہمارا سفیر ہونا چاہیے لیکن وہ ہماری مخالفت کر رہے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا، افغانستان کا مسئلہ حل نہیں کرنا چاہتا اور وہاں پر رہنا چاہتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ امریکا اور افغانستان سے مسلسل الزامات ناقابل قبول ہیں حالانکہ افغانستان میں برسوں جنگ کے باوجود امریکا کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکا لیکن پاکستان اپنی عالمی ذمہ داریوں کو احسن انداز سے نبھا رہا ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا، پاکستان کو کوئی ٹھوس ضمانت دینے کو تیار نہیں اور پاکستان اپنے طور پر افغان طالبان اور کابل کے مابین مذاکرات کے لیے کوشاں ہے۔

افغانستان اور امریکا کے کردار پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ افغانستان میں پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کو پناہ دی جا رہی ہے جبکہ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشیں بھی واضح ہیں۔

سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ امریکا نے کیری لوگر بل سمیت تمام امداد معطل کر دی ہے تاہم امریکا نے نائن الیون کے بعد سے پاکستان کو 5.32 ارب ڈالر فراہم کیے جس میں سویلین امداد بھی شامل ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا کے ساتھ زمینی اور فضائی راہداری تاحال جاری ہے۔

اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ خبریں ہیں کہ قطر سے افغان طالبان پاکستان آئے ہیں لیکن حکومتی سطح پر اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں آئی۔

فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ صوفی محمد کو رہا اور مسعود اظہر کو تحفظ دیا جا رہا ہے جبکہ فتویٰ کہتا ہے کہ جہاد کا اعلان صرف ریاست کرے گی لیکن فتویٰ یہاں خاموش ہے کہ جہادی تنظیمیں سرحد پار ایسا کیوں کرتی ہیں۔

خواجہ آصف نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ فتویٰ جامع طور پر ریاست کی ذمہ داری کو واضح کرتا ہے جو بھی جہادی تنظیم پاکستان سے کہیں بھی کام کرے وہ فتویٰ کے تحت غلط ہے جبکہ خود کش حملہ یہاں ہو، چاند پر یا کہیں بھی وہ حرام ہے تو حرام ہے۔

انھوں نے کہا کہ افغان طالبان کی پاکستان آمد کا کوئی علم نہیں اور ریاست جہاد یا جہادی تنظیموں کو قومی دھارے میں نہیں لا رہی۔

'قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ مایوس کن تھا'

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ یہ انتہائی مثبت اقدام ہے لیکن قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والا اعلامیہ مایوس کن تھا۔

انھوں نے کہا کہ امریکا میں لابنگ کو ختم اور زیادہ متحرک پالیسی کی ضرورت ہے۔

سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کا اجلاس چیئرپرسن سینیٹر نزہت صادق کی زیر صدارت ہوا جہاں سینیٹر فرحت اللہ بابر کی استدعا پر سعودی عرب میں لاپتہ افراد کے حوالے سے معاملے کو جلد حل کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔

تہمینہ جنجوعہ کا کہنا تھا کہ یکم فروری کو وزیر مذہبی امور سعودی عرب کا دورہ کر کے معاملے کو اٹھائیں گے جبکہ تلور کے شکار کے حوالے سے معاملے کو کمیٹی کے اگلے اجلاس تک موخر کر دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں