متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) لندن کے مرحوم رہنما پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی صاحبزادی کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے والد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے نہیں آجاتی تب تک ان کی موت کو طبعی ہی سمجھا جائے۔

خیال رہے کہ ایم کیو ایم لندن کے رہنما پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں اپنی گاڑی میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے جس کے بعد انسانی حقوق کے کارکنان، اساتذہ اور طالبِ علموں کی جانب سے ان کی موت کو قتل قرار دیا گیا اور چیف جسٹس پاکستان سے اس معاملے کا نوٹس لے کر انکوائری کروانے کا مطالبہ سامنے آیا تھا۔

پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی صاحبزادی شہرزادی ظفر عارف نے اپنے ایک بیان میں تمام قیاس آرائیوں کو رد کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروپ کا نام لیے بغیر کہا کہ کچھ لوگ ان کے والد کی موت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں جبکہ وہ لوگ جو ان سے محبت کرتے تھے وہ اس موت کو ایک جرم سمجھتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ایم کیو ایم لندن کے رہنما حسن ظفر عارف کی پراسرار ہلاکت

ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد کا انتقال 14 جنوری کو ہوا اور تمام شواہد سے لگتا ہے ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے ان کے والد کی موت کو ایک بہیمانہ قتل بنانے کی کوشش کی جبکہ شرمناک طریقے سے کچھ لوگوں نے کمپیوٹر سافٹ ویئر کی مدد سے ان کی تصاویر میں خون کو شامل کر کے اسے قتل کا رنگ دیا گیا۔

خیال رہے کہ پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفرعارف کی موت کے بعد ان کے قتل کی قیاس آرائیاں سامنے آئیں تھیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ وہ پروفیسر عارف کے پراسرار انتقال پر انہیں صدمہ ہوا اور اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔

سندھ حکومت نے ڈی آئی جی شرقی سلطان علی خواجہ کو ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی پر اسرار موت کی تحقیق کے لیے انکوائری افسر مقرر کیا تھا اور تین روز بعد انہوں نے کہا کہ وہ جائے وقوع کی کیمیائی رپورٹ کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہہ سکتے ہیں جبکہ میڈیکو لیگل کی رپورٹ میں موت طبعی قرار دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم لندن کے رہنما حسن ظفر ضمانت پر رہا

انسانی حقوق کی تنظیموں اور طالبِ علموں کی جانب سے کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا گیا اور ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی موت کو ’انسانیت کا قتل‘ قرار دیا لیکن ان کی صاحبزادی نے تمام قیاس آرائیوں کو رد کرتے ہوئے اسے طبعی موت قرار دیا۔

تاہم شہرزادی ظفر عارف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جن حالات میں والد کی موت واقع ہوئی وہ انتہائی مشکوک ہیں، وہ گزشتہ ایک رات سے لاپتہ تھے اور ان کی لاش ایسے علاقے میں ملی جہاں وہ اکثر جایا کرتے تھے جبکہ ان کے پاس ان کا موبائل فون بھی موجود نہیں تھا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب تک ان کے والد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے لہٰذا ابھی کوئی وجہ سامنے نہیں آئی اسی لیے اسے صرف طبعی موت ہی کہا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کراچی کے جناح ہسپتال کے عملے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہسپتال کے عملے اور پولیس کی لاپرواہی کی وجہ سے ان کے والد کی لاش کافی دیر تک ہسپتال کے باہر ایک کھلی ایمولینس میں پڑی رہی۔


یہ خبر 18 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں