افغان داراحکومت کابل میں واقع انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں فوجی لباس میں ملبوس دہشت گردوں کے حملے میں 30 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے تمام 5 حملہ آوروں کو بھی ہلاک کردیا، تاہم کراچی میں افغانستان کے قونصل جنرل کے بھی حملے میں مارے جانے کی متضاد اطلاعات ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق صحت عامہ کی وزارت کے ترجمان واجد مجروح کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد 19 لاشوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا، جس میں 6 غیر ملکی بھی شامل تھے، تاہم افغان سیکیورٹی حکام کا کہنا تھا کہ مرنے والوں کی تعداد 30 سے کہیں زیادہ ہے۔

دوسری جانب افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے حملے میں ہوٹل اسٹاف، مہمانوں سمیت سیکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے جبکہ تمام 5 حملہ آوروں کو بھی آپریشن کے دوران مار دیا گیا۔

خیال رہے کہ دہشت گردوں کے حملے کے بعد عمارت کے مختلف حصوں میں آگ لگ گئی تھی، جس میں 150 سے زائد مہمانوں نے بھاگ کر جان بچائی، کچھ مہمان چادروں کے ساتھ کھڑکیوں سے نیچے اترے اور کچھ کو افغان فورسز نے ریسکیو کیا۔

مزید پڑھیں: کابل میں ’خودکش‘ دھماکا، 18 افراد ہلاک

مقامی ایئر لائن کام ایئر کا کہنا تھا کہ ان کے 40 کے قریب پائلٹ اور عملے کے لوگ اس ہوٹل میں مقیم تھے، جن میں سے زیادہ تر غیر ملکی تھے جبکہ ان میں سے 10 سے زائد کو ہلاک کردیا گیا۔

مقامی میڈیا کے مطابق مرنے والوں میں وینزوویلا اور یوکرائن کے لوگ بھی شامل ہیں۔

ادھر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی، خیال رہے کہ 2011 میں بھی طالبان کی جانب سے اس ہوٹل پر حملہ کیا گیا تھا۔

تاہم وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں اس حملے کا ذمہ دار حقانی نیٹ ورک کو قرار دیا جارہا ہے، جن کا ایک گروپ شہری اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے طالبان کے ساتھ ہے۔

اس حوالے سے ہوٹل میں موجود ایک مہمان عبدالرحمٰن نسیری کا کہنا تھا کہ حملہ آور فوج کے لباس میں ملبوس تھے جبکہ وہ پشتو میں کسی کو زندہ نہیں چھوڑنا، سب کو ماردینا کہہ رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ جیسے ہی انہوں نے حملہ آوروں کو دیکھا وہ فوراً اپنے کمرے کی جانب گئے اور کھڑکی سے باہر چھلانگ لگانے کی کوشش کی، جس کے نیتجے میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

سیاہ دھویں کے بادل

خیال رہے کہ گزشتہ روز افغان دارالحکومت میں جس ہوٹل پر حملہ ہوا وہ 1960 سے قائم تھا جبکہ اس حملے کے بعد پورے شہر میں دھویں کے سیاہ بادل دیکھے گئے۔

ٹیلی کمیونکیشن کی وزات کے حکام احمد وحید کا اس بارے میں کہنا تھا کہ یہ ہوٹل شہر کے دو لگژری ہوٹلز میں سے ایک ہے اور یہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کانفرنس ہورہی تھی اور جب حملہ ہوا تو اس وقت 100 سے زائد آئی ٹی منیجر اور انجینئرز وہاں موجود تھے۔

وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دنیش کا کہنا تھا کہ تین ہفتوں سے ہوٹل کی سیکیورٹی کی ذمہ داری ایک نجی کمپنی کی تھی اور ان سے ان کی ناکامی پر تفتیش کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ امریکی سفارتخانے کی جانب سے پہلے ہی آگاہ کیا جاچکا تھا کہ کابل میں ہوٹلوں پر ممکنہ حملہ ہوسکتا ہے۔

ہوٹل منیجر احمد حارث نایاب کا کہنا تھا کہ حملہ آور کچن کے راستے سے ہوٹل کے مرکزی حصے میں داخل ہوئے، جس کے باعث متعدد مہمان اپنے کمروں میں محصور ہوگئے تھے۔

دریں اثناء گزشتہ روز افغانستان کے صوبے ہیرات میں سڑک کنارے بم نصب پٹھنے سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ شمالی صوبے میں چیک پوائنٹ پر مقامی ملیشیا کے 18 افراد کو بھی ہلاک کیا گیا۔

پاکستان کی مذمت

پاکستان کی جانب سے کابل میں ہوٹل پر حملے کے فوری بعد مذمتی بیان جاری کیا گیا۔

دفتر خارجہ کے جاری بیان میں افغانستان کے دارلحکومت کابل میں انٹر کونٹینیٹل ہوٹل پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کی سخت مذمت کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: کابل: افغان خفیہ ادارے کے ٹریننگ سینٹر پر حملہ

دفتر خارجہ نے دہشت گردوں کے حملے کو بزدلانہ اقدام قرار دیا اور حملے میں ہلاک ہونے والے قیمتیوں جانوں کے زیاں پر افسوس کا اظہار کیا۔

ترجمان نے کہا کہ ہوٹل پر دہشت گردوں کے حملوں کے خلاف پاکستان اور افغانستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے اور افغانستان کی ترقی کے لیے ہر قسم کی مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ وہ زخمیوں کی جلد صحیابی کےلیے دعا گوں ہیں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کے ساتھ ہیں۔

ترجمان نے زور دیا ‘ہم ہر قسم کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی بھر پورمذمت کرتے ہیں اور باہم رابطے کے ذریعے ریاستوں میں انسداد دہشت گردی کی سرگرمیوں کی بیخ کنی پر یقین رکھتے ہیں’۔

تبصرے (0) بند ہیں