قصور کی کمسن بچی زینب کے قاتل کی جیکٹ کے کاندھوں پر لگے دو بڑے بٹن نے پولیس کو ملزم تک پہنچنے میں اہم کردار ادا کیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق واقعے کے تحقیقات کرنے پولیس اہلکاروں میں سے ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تحقیقاتی عمل کی تفصیلات بتائیں۔

اہلکار کا کہنا تھا کہ قصور کی آبادی تقریباً 30 لاکھ ہے جس میں سے شہر کی آبادی 7 سے 8 لاکھ کے قریب ہے، اس میں سے خواتین اور بزرگ نکالنے کے بعد تقریباً 70 ہزار کے قریب افراد تفتیش کے پہلے مرحلے میں شامل ہوئے۔

تفتیش کے پہلے مرحلے میں مختلف افراد کو جسمانی اور چہرے کے خدوخال کی بنیاد پر مزید چھان بین کے عمل سے گزارا گیا، جس کے بعد تفتیشی ٹیموں نے علاقے کے گھر گھر جا کر تقریباً ایک ہزار 100 افراد کی حتمی فہرست بنائی گئی جن کا ڈی این اے کیا گیا۔

ڈی این اے ٹیسٹ کے مرحلے میں پاکستان فارنزک سائنس ایجنسی کی جانب سے ایسے افراد کی فہرست سامنے آئی جن کے نتائج قاتل کے ڈی این اے کے قریب ترین تھے۔

مزید پڑھیں: ’شہباز شریف کی پریس کانفرنس میں شرکا نے ہمارے آنسوؤں پر تالیاں بجائیں‘

ان افراد کی فہرست سامنے آنے کے بعد پولیس نے چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کیا۔

ملزم کی تلاش کے اس مشکل عمل کے دوران عمران علی کا ڈی این اے زینب کا ریپ کرنے والے سے مکمل میچ ہوا۔

ڈی این اے میچ ہونے کے بعد پولیس عمران کے گھر پہنچی اور بعد ازاں ملزم کی والدہ کی مدد سے عمران کی گرفتاری عمل میں آئی۔

سی سی ٹی وی کی فوٹیج میں ملزم عمران علی نے داڑھی رکھی ہے اور ایک زِپ والی جیکٹ پہن رکھی ہے، جس کے دونوں کاندھوں پر دو بڑے بٹن لگے ہوئے ہیں۔

تاہم مسئلہ یہ تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں جیکٹ کا رنگ سفید نظر آرہا ہے، جو اس کا حقیقی رنگ نہیں اور اس کے علاوہ کوئی بھی گہرا رنگ ہو سکتا تھا۔

چھاپے کے دوران عمران علی کے گھر سے پولیس کو ایسی ہی ایک جیکٹ ملی جس کے دونوں بٹن کی مدد سے پولیس ملزم تک پہنچنے میں میں کامیاب ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کا ملزم 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ملزم کی والدہ اور چچا نے بتایا کہ انہیں سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے کے بعد شک تو ہوا تھا کہ یہ عمران ہے اور باتیں شروع ہوئی کہ اس کی عمران سے شکل ملتی ہے، مگر کسی نے پولیس کو بتانے کی زحمت نہیں کی۔

پولیس کے مطابق ملزم نہ صرف سیریل کِلر ہے بلکہ ایک سیریل پیڈوفائل بھی ہے، جو نفسیاتی حد تک بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث ہے۔ ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ پکڑے جانے کے ڈر سے بچوں کا گلا گھونٹ کر انہیں قتل کرتا تھا۔

ملزم کا کہنا تھا کہ اس نے پانچ بچیوں کو زیرِ تعمیر گھروں میں ریپ کر کے قتل کیا اور لاش قتل کے دن ہی ٹھکانے لگا دی، جبکہ زینب سمیت تین لڑکیوں کو کوڑے کے ڈھیر کے قریب یا اسی پر ریپ کر کے قتل کیا جہاں سے ان کی لاشیں ملیں۔

تبصرے (0) بند ہیں