قصور میں کم سن زینب کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزم کو لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ عدالت نے ملزم کو 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

ملزم عمران کو سخت سیکیورٹی میں صوبائی دارالحکومت لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت لایا گیا اور جج سجاد احمد کے روبرو پیش کیا گیا۔

خیال رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے گزشتہ روز (23 جنوری) کو ملزم عمران کو پاکپتن سے گرفتار کیا گیا تھا۔

سرکاری پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل کے دوران عدالت کو بتایا کہ ملزم بچوں کو کھانے پینے کی چیزیں دے کر ورغلایا کرتا تھا۔

مزید پڑھیں: زینب قتل کیس کا ’ملزم‘ ڈی این اے ٹیسٹ میں بے قصور ثابت

جج سجاد احمد نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ کے پاس ملزم کے خلاف کیا ثبوت ہیں جس پر انھوں نے کہا کہ ان کے پاس زینب کی ڈی این اے رپورٹ ہے۔

انھوں نے کہا کہ رواں ماہ 20 جنوری کو ملزم کے ڈی این اے کی تصدیق ہوئی تھی جبکہ اس کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی مثبت آیا تھا۔

انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے استفسار کیا کہ ملزم کی داڑھی تھی وہ کہاں گئی جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ملزم نے بچی کو قتل کرنے کے بعد اپنی داڑھی کٹوادی تھی۔

پراسیکیوٹر عبدالرؤف نے عدالت سے ملزم کے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کا ڈی این اے علاقے میں ہونے والے مزید 8 بچیوں کے ساتھ ریپ کے حوالے سے میچ ہوا ہے تاہم اس کی مزید تفتیش کی ضرورت ہے جس کے بعد رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔

جج سجاد احمد نے پراسیکیوٹر کے دلائل سننے کے بعد ملزم کو 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

ملزم کے انکشافات

اس کیس کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) ذرائع کے مطابق ملزم عمران نے دورانِ تفتیش انکشافات کیے کہ اس نے زینب کو پونے سات بجے اغوا کیا اور مناسب جگہ نہ ملنے پر ان کو اپنے ساتھ لے کر علاقے میں ڈیڑھ کلو میٹر تک چہل قدمی کرتا رہا جبکہ زیرِ تعمیر سوسائٹی میں پکڑے جانے کے خوف سے کوڑے کے ڈھیر پر زینب کو لے گیا۔

ملزم عمران نے تفتیش کاروں کو مزید بتایا کہ وہ جن گھروں میں کام کرتا تھا انھی کی بچیوں کو اغوا کرتا تھا ان میں سے 8 بچیوں کو زیر تعمیر مکانوں جب کہ 2 کو کوڑے کے ڈھیر میں ریپ کا نشانہ بنایا۔

مزید پڑھیں: ’شہباز شریف کی پریس کانفرنس میں شرکا نے ہمارے آنسوؤں پر تالیاں بجائیں‘

ذرائع کے مطابق ملزم عمران نے سنسنی خیز انکشاف میں بتایا کہ وہ بچیوں کو نیاز کے چاول، ٹافیاں اور خاص کر بچیوں کو بالوں کے کلپ دلوانے کے بہانے ساتھ لے جاتا تھا۔

عمران نے مزید بتایا کہ اس نے چلڈرن ہسپتال میں داخل کائنات کو دہی دلوانے کے بہانے اغوا کرکے ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔

ملزم سے تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی کے ذرائع نے کہا کہ ملزم عمران چند روز سے زینب کے گھر کے پاس کئی کئی گھنٹے بیٹھا رہا۔

انھوں نے بتایا کہ عمران کے 8 بچیوں کے ساتھ ڈی این اے میچ کرگئے ہیں جب کہ دو بچیوں کا ڈی این اے فارنزک شواہد ضائع ہونے کے باعث میچ نہیں کیا جاسکا جبکہ ملزم عمران نے خود 10 بچیوں سے ریپ کا اعتراف بھی کرلیا۔

قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت ان کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’شہباز شریف کی پریس کانفرنس میں شرکاء نے ہمارے آنسوؤں پر تالیاں بجائیں‘

بچی کی لاش ملنے کے بعد قصور میں پُر تشدد مظاہروں کا آغاز ہوا اور میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہلِ علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔

بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔

خیال رہے کہ 23 جنوری کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں