اسلام آباد: زینب قتل کیس کی عدالت میں سماعت کے آغاز پر ماہر قانون بیرسٹر مسرور شاہ نے کہا ہے کہ زینب قتل کیس میں گرفتار ہونے والا ملزم عمران اب تک ملزم ہے اور منصفانہ سماعت اس کا حق ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام نیوز وائز میں گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر مسرور شاہ کا کہنا تھا کہ زینب قتل کیس میں اگر ملزم پر جرم ثابت ہوتا ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا ملنا چاہیے۔

ماہر قانون کے مطابق ایک اچھا پراسیکویٹر ایک ثبوت کو کیس کی بنیاد نہیں بناتا کیوں کہ اگر اس ثبوت میں کچھ شکوک و شبہات نکل کر سامنے آجائیں تو کیس تاش کے پتوں کی مانند بکھر جاتا ہے۔

بیرسٹر مسرورشاہ نے کہا کہ زینب قتل کیس میں ڈین این اے ایک مضبوط ثبوت ہے لیکن یہ ناکافی ہے کہ جس کی بنا پر ملزم کے خلاف ایک کامیاب کیس کھڑا کیا جا سکے۔

ماہر قانون نے کہا کہ اگر فرانزک لیباریٹری کی ڈین این اے رپورٹ کو ٹرائل کورٹ کے سامنے رکھ کر سزائے موت کی استدعا کریں تو ٹرائل کورٹ ایسا نہیں کر سکے گا۔

مزید پڑھیں:زینب قتل از خود نوٹس: سپریم کورٹ کا ملزم کی سیکیورٹی یقینی بنانے کا حکم

بیرسٹر مسرورشاہ کا کہنا تھاکہ اس کیس میں پولیس کو کارکردگی دکھانا چاہیے جیسے کہ اگر کوئی آلہ قتل یا مقتول بچی کے کپڑوں سے حاصل ہونے والے ثبوت یا جس گھر میں یہ قتل کیا گیا اس گھر سے اس کی انگلیوں کے نشان سامنے لانے چاہیے۔

ماہر قانون کے مطابق بیرسٹر مسرورشاہ، ماہر قانون ریاست کا کام ملزم کو قانون کے مطابق سزا دینا ہے، عوام کے دل میں قانون کا خوف ہو کہ اگر وہ کوئی جرم کریں گے تو ان کو سزا ملے گی اور اگر انصاف کے مطابق عام سزائیں بھی ملنا شروع ہو جائیں وہ لوگوں میں قانون کا ڈر پیدا کرنے کے لئے کافی ہے۔

اس حوالے سے مزید گفتگو کرتے ہوئے ماہر نفسیات ڈاکٹر علی ہاشمی نے کہا کہ پنجاب پولیس نے اس کیس میں ہم سے درخواست کی تھی کی ہم سائیکولوجیکل پروفائلنگ کے طور پر ان کی مدد کریں۔اس حوالے سے ہم نے پولیس سے بات کی کہ زینب قتل کیس میں گرفتار ہونے والے مبینہ ملزم کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر ایک کہرام سا مچ گیا کہ اسے پھانسی دی جائے یا سخت سزا دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:زینب قتل کیس: عدالت میں ڈی جی فرانزک اور پولیس کی رپورٹ پیش

ماہر نفسیات نے کہا کہ اس کیس میں پولیس اور عدالت اپنا کام کر رہے ہیں لیکن فرانزک سائنسدانوں اور ماہر نفسیات کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ اس شخص کا تفصیلی انٹرویو کریں اور دیکھیں کہ اسے کوئی ذہنی بیماری تو نہیں ہے اور ان وجوہات کو جاننے کی کوشش کریں جس کی وجہ سے اس نے یہ کام کیا۔

واضح رہے کہ صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت ان کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

مزید پڑھیں:زینب قتل کا ملزم 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

جبکہ 10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔

بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔

خیال رہے کہ 23 جنوری کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز (24 جنوری کو) ملزم عمران کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جسے عدالت نے 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں