چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے وزیراعظم کی جانب سے عدالت میں عوامی نمائندوں کی تضحیک کے حوالے سے تقریر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ریمارکس نہیں دیتے بلکہ سوال پوچھتے ہیں اور کیا سوال پوچھنا پارلیمنٹیرینز کی تضحیک ہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کی۔

میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے لیکن پارلیمنٹ کے اوپر بھی ایک چیز ہے وہ آئین ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کل پیغام دیا گیا کہ عدالت قانون میں مداخلت نہیں کر سکتی لیکن پارلیمنٹ بھی آئین سے متصادم قانون نہیں بنا سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں انتظامیہ کے عمل اور بنیادی حقوق کو دیکھنا ہے کیونکہ عدالت قانون سازی کے جائزے کا اختیار رکھتی ہے، ہر ادارے کے لیے کچھ حدود مقرر ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایک کیس میں ریمارکس نہیں چند سوالات پوچھے، مقدمات میں سوالات اٹھتے ہیں اور اٹھانے پڑتے ہیں لیکن میں وضاحت دینے کو اپنی کمزوری نہیں بنانا چاہتا تاہم میں کوئی وضاحت نہیں دے رہا اور نہ دینے کا پابند ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پوچھیں کہ فلاں شخص اہل ہے یا نہیں، کیا سوالات پوچھ کر ہم نے پارلیمنٹ یا پارلیمنٹرینز کی توہین کی۔

مزید پڑھیں:’قانون سازی کے حتمی اختیار کے معاملے پر پارلیمان میں بحث کرائی جائے‘

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عدالت کے سوال ریمارکس نہیں ہوتے، معاملے کو سمجھنے کے لیے سوال پوچھتے ہیں اور ہم ریمارکس نہیں دیتے۔

اس موقع پر حامد میر نے کہا کہ لوگ آپ کے سوالات کا غلط مطلب لیتے ہیں آپ پراپیگنڈا کرنے والوں پر توجہ نہ دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نہ کمزور ہیں نہ گھبرائیں گے اورآئینی اختیارات اور طاقت کا بھر پور استعمال کریں گے۔

سماعت کے آغاز میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار کا کہنا تھا کہ میڈیا کمیشن کی کئی سفارشات پر عمل درآمد ہوگیا ہے اب صرف پیمرا کی حکومتی اثر سے آزادی کی سفارش پر عمل نہیں ہوا۔

رانا وقار کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق حکومت پیمرا کو ہدایت دے سکتی ہے جبکہ عدالت کو پالیسی کا جائزہ لینے کا مکمل اختیار ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ حکومت کے موقف سے ہٹ کر بیان دے رہے ہیں کیونکہ حکومت تو کہتی ہے عدالت کو کوئی اختیار نہیں ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ریگولائزڈ اداروں کو حکومتی اثر سے مکمل آزاد ہونا چاہیے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے ہدایت دینے والا اختیار کھبی استعمال نہیں کیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پیمرا کے 12 میں سے 9 اراکین کو حکومت تعینات کرتی ہے اور اپنے ممبر لگا کر حکومت کو ہدایت دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پیمرا آرڈیننس کا مقصد آزاد ریگولیٹری ادارے کا قیام تھا، دیکھنا ہے کیا میڈیا کمیشن کی سفارشات حکومت کو قبول ہیں۔

اس موقع پر درخواست گزار نے کہا کہ حکومت ستمبر 2015 میں پیمرا کو آزاد کروانے کی یقین دہانی کروا چکی تھی۔

وفاقی سیکرٹری اطلاعات بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور کہا کہ پیمرا انتظامی طور پر مکمل آزاد ہے اور ہم گزشتہ یقین دہانی میں کچھ ترمیم چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ممبران کی تعیناتی اور حکومتی ہدایات کے اختیار سے پیمرا خود مختار نہیں لگتا جس پر سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ حکومت نے آج تک ایک بار ہی پیمرا کو ہدایت جاری کی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہدایات ایک ہوں یا زیادہ، تعداد سے فرق نہیں پڑتا تاہم دیکھنا ہے کہ قانون میں تعصب کی کوئی گنجائش ہے یا نہیں۔

سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ فیض آباد دھرنے کے دوران حکومت نے پیمرا کو ایڈوائزری پر عمل نہ کرنے پر چینلز بند کرنے کی ہدایات کی تھی۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ چینلز کھلوانے کے لیے حکم جاری کرنے ہی والا تھا کہ رجسٹرار نے چئیرمین پیمرا سے بات کی اور انھوں نے بتایا کہ 2 بجے چینلز کھول دیے جائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چینلز بند کرنے کا کام پیمرا کا ہے حکومت کا نہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پیمرا ممبران کو آزاد اور قابل ہونا چا ہیے اور ممبران کی عدم تعیناتی کی وجہ سے کئی ریگولیٹری ادارے متاثر ہو رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کئی تعیناتیاں حکومت نے ایسی کیں جو قواعد کے مطابق نہیں، کئی تقرریوں میں عدالت کو اپنا اختیار استعمال کرنا پڑتا ہے۔

سیکریٹری اطلاعات کی جانب سے چئیر مین کی تعیناتی کے لیے اشتہار جاری کرنے کی بات پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اشتہار میں عمر کی حد 61 سال کیوں دی گئی، کیا کسی خاص فرد کے لیے یہ حد رکھی گئی ہے۔

چیئرمین پیمرا کی عمر کی حد کی وضاحت کرتے ہوئے سیکریٹری اطلاعات نے کہا کہ تعیناتی کی مدت چار سال ہے اور یٹائرمنٹ پر چئیر مین کی عمر 65 سال ہو گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پیمرا آئیڈیل، آزاد ادارہ نہیں ہے، پیمرا کو آزاد ادارہ بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں، اگر حکومت پیمرا کو آزاد نہیں کرتی تو قانون کا جائزہ لیں گے۔

سیکریٹری اطلاعات نے کہا کہ معاملے کو کابینہ میں لے جانا پڑے گا جس کے لیے عدالت دو ہفتے کا وقت دے تاہم وکیل بابر اعوان نے کہا کہ گزشتہ 6 ماہ سے پیمرا اتھارٹی نامکمل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

Princess Feb 20, 2018 07:57pm
محترم چیف جسٹس صاحب آپ کا پوچھا گیا ہر سوال ضروری تھا۔ عدالت کے فیصلے عوام کی رائے سے نہیں قانون انصاف سے ہوتے ہیں۔ جو علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے برابر نہیں ہو سکتے۔ آپ کو علم رکھنے والوں کی مکمل تائید حاصل ہے۔ انصاف یہ ہے کہ اگر پاکستان کی تمام عوام بھی ایک چور کی تائید کرنے لگ جائے تو آپ انصاف پر مضبوطی سے قائم رہیں۔ خدا نے آپ کو یہ عظیم مرتبہ صرف انصاف اور صرف انصاف ہی لیے دیا ہے۔ کوئی خوش ہو یا ناراض آپ ڈٹے رہیں۔ دنیا میں نیکو کا روں کو یہی طریقہ رہا ہے۔ تمام زمانہ بھی خلاف ہو گیا تو انہوں نے حق کا دامن نہیں چھوڑا۔ کچھ عرصہ قبل انڈیا میں ایک گورو سزا ہوئی اُس کے پیرو کاروں نے خوب ہنگامہ کیا قتل و غارت ہوئی لیکن عدالت ڈٹی رہی۔ بھلے کوئی چور اور اُس کے چاہنے والے عدالت کو للکارتے اور برا کہتے رہیں آپ صرف خدا کے حضور جواب دہ ہیں خدا آپ کا مدد گار ہو اور آپ کو اور طاقت عطا فرمائے۔ آپ اپنے کڑے فیصلے دیں تا کہ چور اور عدالت کی توہین کرنے والے سبق حاصل کریں۔
husain Feb 20, 2018 09:22pm
@Princess I totally agree with you. I am thankful to CJ for all his efforts.
tayyab Feb 21, 2018 01:30am
CJ sb i am very happy to see in this phase. i like your effort and i hope you will keep continuous for Pakistani peoples not for politicians.
KHAN Feb 21, 2018 05:45pm
@Princess چیف صاحب عدل و انصاف سب سے پہلے۔