حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں عبدالمنان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں آئین پر بحث اور اس میں ترمیم کرنا جمہوری حکومت کا حق ہے جیسے کوئی نہیں چھین سکتا۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے میاں عبدالمنان نے کہا کہ ہم نے کسی قسم کا بھی ماورائے آئین کام نہیں کیا اور یہ ترمیم ہمشہ فوجی آمر لے کر آئے، جسے پارلیمنٹ نے ختم کیا، تاہم آئین میں ترمیم کا حق کسی آمر کو نہیں، بلکہ ایک جمہوری اقتدار میں اسمبلی کو حاصل ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'آج جب ہم ترمیم کرنے کی بات رہے ہیں تو اسے آئین سے متصادم قرار دیا جارہا ہے اور جب سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے دو مرتبہ آئین کو توڑا تو ان سے کسی نے کیوں سوال نہیں کیا؟'

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ آئین یہ کہتا ہے کہ ججز کے کردار پر پارلیمنٹ کے ایوان میں بات نہیں ہوسکتی، مگر ان کے الفاظ کو دہرانے کی اجازت حاصل ہے، لہذا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی تقریر میں بھی یہی کیا ہے۔

مزید پڑھیں: وضاحت دینے کا پابند نہیں، کیا سوال پوچھنا اراکین اسمبلی کی تضحیک ہے، چیف جسٹس

مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا کہنا تھا کہ 'اگر ججز عوامی نمائندوں کو چور، ڈاکو اور سسیلین مافیا کہیں گے تو کیا ان کے الفاظ کو ایوان میں دہرانا بھی جرم ہے؟'

انہوں نے کہا کہ 'میں یہاں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر داخلہ احسن اقبال کی تقریر کو کسی صورت بھی عدالت کی توہین نہیں سمجھتا کیونکہ انہوں نے جو باتیں کی وہ ججز کے اپنے الفاظ تھے اور یہ احساس دلایا گیا کہ آپ خود کیا کررہے ہیں'۔

اس سوال پر کہ کیا پھر آپ کی جماعت کی جانب سے عدلیہ مخالف بیانات دینا بھی درست ہے؟ تو میاں عبدالمنان نے کہا کہ توہین عدالت کا معاملہ اس وقت زیر سماعت ہے اور کسی بھی کارروائی سے پہلے دیکھنا ہوگا کہ جن دو رہنماؤں کو نوٹس جاری ہوئے کیا واقعی انہوں نے عدالت کی توہین کی ہے یا نہیں۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے وزیراعظم کی جانب سے عدالت میں عوامی نمائندوں کی تضحیک کے حوالے سے تقریر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ریمارکس نہیں دیتے بلکہ سوال پوچھتے ہیں اور کیا سوال پوچھنا پارلیمنٹیرینز کی تضحیک ہے۔

میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا تھا کہ میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے لیکن پارلیمنٹ کے اوپر بھی ایک چیز ہے وہ آئین ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’قانون سازی کے حتمی اختیار کے معاملے پر پارلیمان میں بحث کرائی جائے‘

چیف جسٹس نے کہا کہ کل پیغام دیا گیا کہ عدالت قانون میں مداخلت نہیں کر سکتی لیکن پارلیمنٹ بھی آئین سے متصادم قانون نہیں بنا سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں انتظامیہ کے عمل اور بنیادی حقوق کو دیکھنا ہے کیونکہ عدالت قانون سازی کے جائزے کا اختیار رکھتی ہے اور ہر ادارے کے لیے کچھ حدود مقرر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک کیس میں ریمارکس نہیں چند سوالات پوچھے، مقدمات میں سوالات اٹھتے ہیں اور اٹھانے پڑتے ہیں لیکن میں وضاحت دینے کو اپنی کمزوری نہیں بنانا چاہتا تاہم میں کوئی وضاحت نہیں دے رہا اور نہ دینے کا پابند ہوں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کے معاملے کو ایوان میں اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ قانون سازی کے حتمی اختیار کے معاملے پر پارلیمان میں بحث کرائی جائے۔

مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی گروپ کے اجلاس کے بعد قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران وزیر اعظم نے کئی مرتبہ عدالتی عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ ان معاملات سے حکومت کا کام کرنے کا عمل شدید متاثر ہورہا ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے کچھ ججوں کی جانب سے منتخب نمائندوں کے بارے میں ناپسندیدہ ریمارکس دینے پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔

قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کی اس تجویز پر اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مثبت ردعمل دکھایا گیا اور سب اس بات پر راضی ہوئے کہ ریاستی اداروں کے کردار اور اختیارات کے معاملے پر پارلیمانی بحث کی ضرورت ہے، تاہم تمام جماعتوں نے اس معاملے پر حکومتی جماعت کے خلوص پر تحفظات کا اظہار کیا اور الزام لگایا کہ ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا اصل مقصد صرف نواز شریف کے سیاسی مستقبل کو بچانے کے لیے ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں