ایرانی پولیس اہلکار کی جانب سے حجاب کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین کو سڑک پر دھکا دے کر گرانے کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر تنقید کی ایک نئی لہر پیدا کردی۔

یاد رہے کہ اس سے قبل ایران میں خاتون کی گزشتہ سال بغیر حجاب کے ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں وہ تہران کی انقلاب سڑک پر اپنا اسکارف ایک ڈنڈے پر لگا کر لہراتی نظر آرہی تھیں۔

ان کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد درجنوں ایرانی خواتین نے سوشل میڈیا پر عوامی مقامات پر بغیر حجاب کے تصویریں بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کرنا شروع کردیا تھا۔

تاہم ان کی اس نئی ویڈیو میں انہیں ایک سڑک پر لگے ڈبے پر کھلے بالوں کے ساتھ ہاتھ میں اسکارف پکڑے دیکھا گیا۔

ویڈیو میں دیکھا گیا کہ جب انہیں دو پولیس اہلکاروں کی جانب سے نیچے اترنے کا کہا گیا تو انہوں نے ان سے اپنے جرم کا پوچھا جس کے جواب میں ایک پولیس اہلکار نے انہیں بتایا کہ ’آپ نے عوامی احکامات کی خلاف ورزی کی ہے‘۔

مزید پڑھیں: ایران: ’حجاب‘ کے خلاف احتجاج پر 29 خواتین گرفتار

ویڈیو میں عوام کو تالیاں بجاتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔

موبائل فون سے بنی ایک اور ویڈیو میں دیکھا گیا کہ پولیس اہلکار ایک درخت کا سہارا لے کر ان کے ساتھ اس ڈبے پر چڑھا اور انہیں دھکا دے کر نیچے گرادیا۔

خاتون کے نیچے گرنے کے بعد سڑک پر جمع افراد میں سے ایک شخص نے سوال کیا کہ ’انسانی حقوق کہاں ہیں‘۔

ایران میں انسانی حقوق کی سرگرم رکن نسرین سوتودہ نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر اس حوالے سے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ پولیس اہلکار نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے، کسی شخص کو عورتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی خاتون کے ساتھ پولیس اہلکار کا نارروا سلوک کرنے پر سخت تنقید سامنے آیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایرانی مظاہروں کے پیچھے جائز مطالبات یا غیر ملکی سازش؟

ایک ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ ایران میں پولیس کی وردی پہن کر قانون کی خلاف ورزی کرنا ہی ہمارا مسئلہ ہے۔

ایک اور ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ جس پولیس اہلکار نے انقلاب سڑک پر خاتون کو نیچے گرانے کی ذمہ دار ہے وہی انتخابات میں سیکیورٹی کے فرائض انجام دیں گے۔

خیال رہے کہ دسمبر 2017 سے اب تک تہران میں حجاب پہننے کے ایرانی قانون کی خلاف ورزی کرنے پر 30 خواتین کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں