تہران: پولیس نے حجاب کے خلاف جاری سوشل میڈیا مہم کا حصہ بننے والی 29 خواتین کو عوامی گزرگاہ پر بغیر حجاب ہونے کی وجہ سے گرفتار کرلیا۔

واضح رہے کہ 1979 کے انقلاب کے بعد نافذ اسلامی قوانین کے تحت ایران میں خواتین کو اپنا سر اسکارف سے ڈھانپنا ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایرانی مظاہروں کے پیچھے جائز مطالبات یا غیر ملکی سازش؟

دوسری جانب حجاب بیزار خواتین کی آن لائن تصاویر کے بعد سوشل میڈیا پر ایران حکومت مخالف تنقید اور حمایت پر بحث زور پکڑ گئی۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چیف پروسیکیوٹر محمد جعفر منتظری نے بدھ کے روز ہونے والے حجاب مخالف احتجاج کو ‘بچکانہ’ حرکت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بعض غیر ملکی عناصر ایران میں لوگوں کو ‘ورغلا’ کر انتشار کی فضاء چاہتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی حجاب بیزار خواتین کی ویڈیو اور تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مصروف شاہراہ پر 11 خواتین ایک ڈبے پر کھڑے ہوئے کر چھڑی کی نوک پر حجاب لٹکا کر کھڑی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایران میں 20 افراد کو پھانسی دے دی گئی

ٹوئٹر پر نشر ہونے والی تقریباً 2 تصاویر میں خواتین کو روایتی لباس میں دیکھا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے ‘حقوقِ نسواں کی آزادی’ والے پلے کارڈز اٹھا رکھے ہیں۔

ایک پلے کارڈ پر درج تھا کہ ‘مجھے اپنے حجاب سے محبت ہے لیکن میں حجاب کو لازمی قرار دینے کی مخالف ہوں’۔

محمد جعفر منتظری نے کہا کہ جو لوگ حجاب کے قانون کی دھجیاں اڑانا چاہتے ہیں انہیں مقامی شہریوں نے نہیں بلکہ بیرونِ ممالک سے آنے والوں نے ورغلایا ورنہ حجاب تو صرف سر کو ڈھانپنے والا ایک ہلکا پھلکا کپڑا ہے۔

مزید پڑھیں: بلیئرڈ کی ایرانی خواتین کھلاڑیوں پر پابندی

ایران کی ایک ریفارمسٹ اور رکن پارلیمنٹ سہیلا نے کہا کہ ‘خواتین کے لباس پر غیر ضروری کنٹرول کرنے کی کوششیں برسوں سے ناکام ہوتی آرہی ہیں، آج حجاب بیزار خواتین کا احتجاج ہماری غلطیوں کا شاخسانہ ہے’۔

ڈپٹی اسپیکر پارلیمنٹ علی مطہری نے واضح کیا کہ ‘حجاب کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے متعدد خواتین اپنی مرضی کا لباس زیب تن کرکے سڑکوں پر نکلتی ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ اگر گنتی کی خواتین اپنا حجاب چھڑی کی نوک پر رکھ کر کھڑی ہیں تو یہ کوئی بڑا واقعہ نہیں، خواتین حجاب کی کم یا زیادہ عزت کرتی ہیں، ملک کامسئلہ حجاب نہیں ہے’۔


یہ خبر 3 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں