گلگت: پاکستان میں دنیا کی دوسری بلند ترین پہاڑی چوٹی ’کے ٹو‘ کو موسم سرما میں سر کرنے والی پولش ٹیم میں اختلافات کے بعد روسی نژاد پولش کوہ پیما ڈینس اربکو اکیلے ہی مہم جوئی کے لیے نکل پڑے ہیں۔

خراب موسم کی وجہ سے ٹیم نے مہم جوئی کا فیصلہ اگلے مہینے تک کے لیے موخر کردیا تھا تاہم ڈینس اربکو نے ٹیم کے اراکین کو ماننے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔

یہ پڑھیں: ’ماؤنٹ ایورسٹ‘ سر کرنے والے پاکستانی کوہ پیما کی وطن واپسی

پولش ٹیم کے پریس آفس نے بتایا کہ ڈینس اربکو اتوار کی صبح بیس کیمپ سے روانہ ہوئے تاہم انہوں نے اپنے فیصلے سے متعلق کسی کو آگاہ نہیں کیا اور موسم سرما میں تنہا ہی کوہ پیمائی کے لیے نکل گئے’۔

اس سے قبل ڈینس اربکو نے مہم جوئی کی انتظامیہ پر ‘باسکیو روٹ’ کے انتخاب اور مہم جوئی سے متعلق مختلف امور پر فیصلوں میں تاخیر پر تنقید بھی کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ موسم سرما فروری کی 28 تاریخ تک ختم ہو جائے گا جبکہ ٹیم کا موقف تھا کہ موسم سرما 20 مارچ تک رہے گا۔

ڈینس اربکو نے اپنے آخری بلاگ میں لکھا کہ ’میرا جسم کمزور پڑ چکا ہے لیکن پہاڑ کو سر کرنے کی آخری کوشش کے لیے پٹھوں میں توانائی باقی ہے لیکن یہ توانائی مجھے گرما نہیں پا رہی‘۔

ڈینس اربکو کے خود سری پر مبنی فیصلے سے ٹیم کی انتظامیہ خوش نہیں کیونکہ متفقہ فیصلہ ہوا تھا کہ اگلے مہینے کے آغاز میں کوہ پیمائی شروع کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: علی سدپارہ مصنوعی آکسیجن کے بغیرماؤنٹ ایورسٹ کی مہم پر روانہ

پولش میڈیا کے مطابق ڈینس اربکو سے تاحال کوئی رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔

اس سے قبل 9 فروری کو پولش کوہ پیماہ کی ٹیم کیمپ ون سے کیمپ 2 کے دوران حادثے کا شکار ہوئی تھی جس میں آدم بائیلیک کی ناک پر گہرا زخم آیا اور 6 ٹانکے لگنے کے باوجود مہم کوہ پیمائی جاری رکھی جبکہ ان کے ساتھی رافل فرونیا کا ہاتھ ٹوٹنے کی وجہ علاج کی غرض سے واپس پولینڈ آنا پڑا۔

روسی میڈیا کے مطابق ڈینس اربکو نے آدم بائیلیک سے کہا تھا کہ وہ ان کے ہمراہ اپنی مہم جوئی جاری رکھیں لیکن آدم بائیلیک نے انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ان کی طبعیت اس وقت مہم جوئی کی اجازت نہیں دیتی لٰہذا موسم کے اچھے ہونے کا انتظار کیا جائے۔

دوسری جانب رافل فرونیا نے ڈینس اربکو کے فیصلے سے متعلق کہا کہ ’ڈینس ایک تجربہ کار اور باہمت کوہ پیما ہیں، جب انہوں نے دیکھا کہ ٹیم کی رضا مندی نہیں تو انفرادی طور پر کوہ پیمائی کا فیصلہ کیا جبکہ ٹیم انتظامیہ کی جانب سے اس انفرادی منصوبے کی کوئی تصدیق نہیں تھی‘۔

مزید پڑھیں: پہلی امریکی خاتون کے ٹو سر کرنے میں کامیاب

ادھر الپائن کلب پاکستان کے سیکریٹری اطلاعات قرار حیدری نے بتایا کہ پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کے لیے کم از کم دو کوہ پیما کا ساتھ ہونا بہت ضروری ہے اس لیے ڈینس اربکو کی جانب سے تنہا مہم جوئی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل رواں برس جنوری میں پاکستان کے شہر اسکردو سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ علی سدپارہ نے دنیا کی خطرناک اور بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو موسم سرما میں مصنوعی آکسیجن سلینڈر کے بغیر سر کرنے کا آغاز کیا۔

موسم سرما میں ماؤنٹ ایورسٹ کو پولینڈ کے دو کوہ پیماؤں نے فروری 1980 میں سر کیا تھا۔

علی سدپارہ نے کہا ہے کہ ‘وہ بہت پرامید ہیں کہ موسم سرما میں دنیا کی بلند ترین اور خطرناک چوٹی پر پاکستان کا جھنڈا لہر کر دنیا کا واحد کوہ پیما ہونے کا اعزاز حاصل کر سکیں گے’۔

اس سے قبل جنوری 2016 میں علی سد پارہ نے غیر ملکی کوہ پیما کے ساتھ مل کر 8 ہزار 126 میڑ لمبی نانگا پربت چوٹی کو موسم سرما میں سر کیا تھا۔


یہ خبر 26 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں