اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے خلاف دائر ریفرنس کے مدعی ’سازش‘ کا حصہ ہیں اور اصل شکایت کنندہ کوئی اور ہے۔

جسٹس شوکت عزیز نے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) سے درخواست کی کہ ان کے اظہارِ وجوہ کے نوٹس کو رد کیا جائے کیونکہ انہوں نے فوج کے خلاف منفی ریمارکس نہیں دیئے۔

یہ بھی پڑھیں: دھرنا ختم کرانے کیلئے معاہدہ کرنا مجبوری تھا، احسن اقبال

واضح رہے کہ رکنِ قومی اسمبلی جمشید دستی کی جانب سے دائر ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ فیض آباد میں مذہبی جماعتوں کی جانب سے دیئے گئے دھرنے سے متعلق ایک کیس سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دھرنا دینے والی مذہبی جماعتوں اور وفاقی حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے پر اعتراض اٹھایا تھا جس میں مسلح افواج کی جانب اہم کردار ادا کیا گیا تھا۔

مذکورہ ریفرنس کا مکمل جائزہ لینے کے بعد رواں ماہ 6 فروری کو ایس جے سی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں یہ رائے دی گئی کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ایس جے سی میں اپنا جواب جمع کرواتے ہوئے کہا کہ شکایت کنندہ گان صرف ’سازش‘ کا حصہ ہیں جنہوں نے کسی اور کے ایما پر ریفرنس دائر کیا تاہم اس حوالے سے ان کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں اور ضرورت پڑنے پر پیش بھی کیے جا سکتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ ایس جے سی ایک سپریم آئینی ادارہ ہے جسے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت بنایا گیا ہے جو جج صاحبان اور اہم سرکاری عہدوں کے پر فائز ہونے والی شخصیات کے خلاف الزامات کی تحقیقات کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ایک اور شو کاز نوٹس

جسٹس شوکت صدیقی نے ایس جے سی کو تحریری جواب میں وضاحت پیش کی کہ فوج ایک آئینی ادارہ نہیں بلکہ آئین کے تحت اس کی تخلیق ہوئی ہے اس لیے یہ ادارہ آئینی عدالتوں کے دائرہ کار سے باہر نہیں۔

انہوں نے آئین کے آرٹیکل 243 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کو دفاعی فورسز پر مکمل کنٹرول اور اختیار ہوتا ہے نہ کہ فوج کو وفاقی ادارے پر۔

جسٹس شوکت صدیقی نے مزید کہا کہ فوج کی ذمہ داری پاکستان کو درپیش خارجی مداخلت سے بچانا اور سول حکومت کی درخواست پر قانون کی عملداری کو برقرار رکھنا ہے اور عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ وفاقی حکومت کو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنے کا پابند رکھے۔

مزید پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی نے خود کو اوپن ٹرائل کیلئے پیش کردیا

خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کے ایک ریٹائرڈ ملازم کی جانب سے بھی دائر ریفرنس کا سامنا ہے جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عدالتِ عالیہ کے جج نے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر بغیر اجازت رنگ و روغن کروایا۔

جس پر جج نے سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کی کہ مذکورہ ریفرنس کا اوپن ٹرائل کیا جائے۔


یہ خبر 13 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں