وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ مذہبی جماعت کا دھرنا ختم کرانے کے لیے معاہدہ کرنا مجبوری تھا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ’دھرنا ختم کرانے کے لیے معاہدہ کرنا مجبوری تھا، اگر دھرنا مزید چوبیس گھنٹے جاری رہتا تو فساد برپا ہونے کا خطرہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’سول اور عسکری قیادت نے مل کر ملک کو مذہبی تشدد کے خطرے سے بچایا۔‘

دوسری جانب اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر کئی ہفتے تک دھرنا دینے والی مذہبی جماعت تحریک لبیک یارسول اللہ کے سربراہ اور سرپرست اعلیٰ علامہ خادم حسین رضوی نے نجی نیوز چینل ’سماء‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر داخلہ احسن اقبال سمیت کسی حکومتی شخص سے مذاکرات ہوئے نہ معاہدہ ہوا۔‘

انہوں نے انکشاف کیا کہ ’یہ آرمی تھی جس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ حکومت ہمارے مطالبات تسلیم کرے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم حکومت کو بتاچکے تھے کہ ہم ان سے مذاکرات کرنا نہیں چاہتے، جس کے بعد آرمی نے کردار ادا کیا اور ہمارے ساتھیوں نے آرمی اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔‘

خادم حسین رضوی کا کہنا تھا کہ ’آرمی اور آئی ایس آئی نے ہمیں بتایا کہ وہ ہمارے تمام مطالبات منوائیں گے۔‘

واضح رہے کہ مذہبی جماعت کے کئی ہفتے کے دھرنے، جس سے اسلام آباد کا نظام زندگی مفلوج رہا اور کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، کے بعد حکومت نے پیر کے روز مظاہرین کے مطالبات منظور کر لیے تھے اور زاہد حامد وزارت قانون و انصاف کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

مزید پڑھیں: وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ منظور

سرکاری عہدیداروں اور نشریاتی ادارے ’پی ٹی وی‘ کا کہنا تھا کہ زاہد حامد کا استعفیٰ ہفتہ کے روز فیض آباد دھرنے کے شرکا کے خلاف آپریشن اور اتوار کو رات گئے دھرنے کے رہنماؤں سے ’کامیاب مذاکرات‘ کے بعد سامنے آیا۔

آپریشن کے دوران 6 افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔

دھرنا کے شرکا کا حکومت سے کیے گئے معاہدے میں آپریشن کے دوران تمام کارکنان کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

حکومت اور مظاہرین کے درمیان دھرنے کے خاتمے کے لیے اس معاہدے پر مختلف طبقات کی جانب سے تنقید کی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے حکومت کے ساتھ ساتھ آرمی کو بھی ثالث بننے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا کئی ہفتے بعد ختم، کارواں روانہ

فیض آباد دھرنا ختم کرنے کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ ’آرمی چیف ملک کے چیف ایگزیکٹو کا حکم ماننے کے بجائے ثالث بن گئے۔‘

انہوں نے استفسار کیا کہ پاکستانی قانون میں ایک میجر جنرل کو ثالث بنانے کا اختیار کہاں دیا گیا ہے، جس بندے کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے تھا اسے ثالث بنا دیا گیا۔

انہوں نے براہِ راست فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فوج اپنی آئینی حدود میں رہے کیونکہ اب عدلیہ میں جسٹس منیر کے پیروکار نہیں ہیں اور جن فوجیوں کو سیاست کا شوق ہے وہ حکومت کی دی ہوئی بندوق واپس کرکے ریٹائرڈ ہوجائیں اور سیاست کا شوق پورا کرلیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں