سیاست کے عالمی اکھاڑے میں گزشتہ سال ٹرمپ کی آمد کے بعد میڈیائی تماشائیوں کی دھڑکنیں جس طرح بے ترتیب ہوئی تھیں اور اس کھیل پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین نے جس طرح کی دنیا کی پیشگوئیاں کی تھیں وہ حالیہ عالمی منظر نامے میں پوری ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

فی زمانہ امریکی صدر کی خارجہ پالیسی پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو بین الاقوامی تعلقات سے ذرا بھی واقفیت رکھنے والا طالبعلم یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ بحرِ اوقیانوس کے اِس پار ایشیا اور ایشیا میں بطور خاص مشرق وسطیٰ، جنوب مشرق ایشیا اور جنوبی ایشیا کا امن موجودہ امریکی خارجہ پالیسی کے سبب ٹائم بم تلے رکھا جا چکا ہے۔

ٹرمپ نے انتخابی مہم میں اعلان کیا تھا کہ وہ:

  • امریکا میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگائیں گے۔ وہ جیتے اور انہوں نے یہ پابندی لگائی۔

  • چین کے ساتھ تجارتی جنگ کریں گے اور چینی برآمدات پر اضافی سرچارج لگائیں گے، اور وہ ایسا کرچکے ہیں۔

  • "امریکی سفارتی تاریخ کے بدترین معاہدے" یعنی P5+1 اور ایران کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے امریکا کو نکالیں گے۔

جان بولٹن کی بطور قومی سلامتی مشیر اور مائیک پومپیو کی بطور سیکریٹری خارجہ تعیناتی امریکی صدر کی جانب سے واضح پیغام ہے کہ امسال وہ 12 مئی کو ایران سے کیے گئے جوہری معاہدے کی توثیق نہیں کریں گے اور یوں امریکا انفرادی طور پر اس معاہدے سے نکل جائے گا۔

مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال

صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی صدارت میں امریکا مقبوضہ بیت المقدس کو صیہونی ریاست اسرائیل کا مستقل دارالحکومت تسلیم کرے گا اور یہ بھی کہ وہ مستقبل میں کسی بھی قسم کی فلسطینی ریاست کا قیام غیر ممکن سمجھتے ہیں۔

پڑھیے: ٹرمپ کا پاکستان پر وار، دوست بھی نا بنے غم خوار

ان کی جانب سے نامزد قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کی تمام تر سفارت کاری زندگی اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ صدر ٹرمپ اور ان کی موجودہ کابینہ بشمول ان کے داماد جیرڈ کشنر جو کہ ان کے مشرق وسطیٰ امور کے لیے خصوصی ایلچی بھی ہیں، کی طے شدہ ترجیحات میں مشرق وسطیٰ کے سب سے خطرناک مسئلے کا حل ایک مکمل صیہونی ریاست کا قیام ہے جس کا اعلان وہ اسی سال کرنا چاہتے ہیں۔

جان بولٹن اس سے پہلے بہت دفعہ بیان کرچکے ہیں کہ غزہ اور غرب اردن کو مصر اور اردن کے حوالے کر دینا چاہیے اور اسرائیل کے بارڈرز اس تقسیم کے بعد عالمی سطح پر تسلیم کر لیے جائیں گے۔ یہ صاحب اس سے پہلے عراق جنگ میں اس جھوٹے الزام کے بڑے مشتہر تھے کہ صدام حسین کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں اور یہ بھی کہ امریکا کو فی الفور شمالی کوریا اور ایران پر حملہ کر دینا چاہیے۔

روس اور شمالی کوریا سے مخاصمت

اپنی صدارت سے پہلے اور آغاز کے دنوں میں اگرچہ ٹرمپ روسی صدر پیوٹن کے مداح رہ چکے ہیں تاہم اب صورتحال بدل چکی ہے۔ تادمِ تحریر ٹرمپ انتظامیہ اس الزام پر کہ برطانیہ میں ہوئے روسی ڈبل ایجنٹ پر زہرکے حملے میں روس ملوث ہے، کے جواب میں 60 روسی سفارتکاروں اور دیگر ملازمین کو امریکا چھوڑنے کا حکم دے چکی ہے۔

یہ حکم جب سنایا گیا تو عالمی صحافی ششدر رہ گئے کیوں کہ کچھ ہی دن پہلے مشیران کے منع کرنے کے باوجود صدر ٹرمپ پیوٹن کو ایک مرتبہ پھر روس کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دے چکے ہیں۔ یاد رکھنے کا نکتہ یہ ہے کہ مشیران کے منع کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ روس برطانوی سرزمین پر قتل کی ایک سازش میں ملوث ہے سو اسے بطور انتباہ یہ سخت پیغام دیا جائے۔

اس کہانی کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ موجودہ امریکی صدر کی مثال ایک بگڑے ہوئے بچے کی ہے جس کے ہاتھ میں طاقتور ہتھیار ہے۔ دلچسپی سے خالی نہیں کہ ٹرمپ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کی دھمکی کے جواب میں خود بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ میرے پاس تمہارے بم سے بھی بڑا بم ہے اور یہ چلتا بھی ہے۔

چین کے خلاف امریکی منصوبے

تاریخی طور پر سرد جنگ کے بعد پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ 100 سے زائد روسی سفارتی اہلکار امریکا و یورپ سے بے دخل کر دیے گئے ہوں۔ روس کا جوابی اقدام بھی ایسا ہی ہے اور یہ بھی اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔

مزید پڑھیے: 2017: ٹرمپ کی ناکامیوں اور یورپی انتہاپسندوں کی کامیابیوں کا سال

چین پر امریکا کی تجارتی سختی اور جواب میں چین کے اقدامات بھی اپنی نوعیت کے پہلے پہلے واقعات ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکا اسرائیل اور سعودی عرب کی صورت میں ایک نیا اتحاد بن رہا ہے۔ اس تعلق کی ہم آہنگ کڑی امریکا ہے۔ ہندوستان اس اتحاد کا بیرونی معاون ہے۔

دوسری جانب مشرقِ وسطیٰ میں اس اتحاد کا بڑا دشمن ایران ہے جسے خطے میں اپنے وسیع مقاصد کے حصول کے لیے عالمی تسلیم شدہ حکومتوں کے علاوہ پراکسی گروپس کی حمایت اور روس جیسے عالمی کھلاڑی کی حمایت حاصل ہے۔

اگرچہ ہندوستان روس کے ساتھ دفاع اور دیگر تجارتی رشتوں میں بندھا ہوا ہے اور ایران کے ساتھ بھی ان کی گہری شناسائی ہے تاہم مشرق وسطیٰ کے منظر نامے تک محدود رہتے ہوئے دیکھیں تو پاکستان تاحال ایک غیر جانبدار جبکہ ہندوستان ایک گروپ کے پارٹنر کے روپ میں نظر آتا ہے۔ یہاں امریکا اور ہندوستان اسرائیلی مفادات کے تحفظ میں پارٹنر نظر آتے ہیں۔

بحیرہ جنوبی چین کے تنازع میں جہاں چین ایک طرف ہے اور خطے کے تمام ممالک اس کے حریف ہیں وہیں ہندوستان چین سے اس پنجہ آزمائی میں مشغول نظر آتا ہے کیوں کہ آبنائے ملاکا کے اس پار بحر ہند کا سیکورٹی ٹھیکے دار ہندوستان ہے۔ چین کو ہندوستان کا یہ کردار چبھتا ہے مگر امریکا کو اس امر پہ آمین ہے۔

پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟

مسلسل بدلتے ہوئے اس منظرنامے میں ماہرین مستقبل کے ہندوستان کو امریکا کے مزید قریب دیکھتے ہیں۔ اگرچہ عالمی سیاست کی کئی صورتوں میں 2 میں سے 2 کو منفی کر بھی دیا جائے تو جواب 2 ہی رہتا ہے، تاہم یہاں ہم ایک منظر کو دیکھ کر دوسرا منظر اخذ کرسکتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر ہندوستان امریکا کے مزید قریب ہوگا تو پاکستان لامحالہ امریکا سے دور ہوگا۔

امریکا سے دوری پاکستان کی چین سے مزید قربت کا باعث ہوگی۔ تنہا چین سے دوستی رہنا مشکل ہے کیوں کہ روس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا چنانچہ پاکستان روس کے بھی قریب ہوتا ہوا دکھائی دے گا اور ایسا ہوتا ہوا نظر بھی آرہا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ اور آرمی چیف کا دورہ ماسکو، اور روس سے جدید ہیلی کاپٹرز کی خریداری وغیرہ اس کا ثبوت ہیں۔

یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ پاکستان نے شام کے موضوع پر کسی بھی ایسی عالمی قرارداد میں شمولیت یا رائے کا اظہار نہیں کیا جس سے روس یا چین کے مؤقف کی نفی ہوتی ہو۔ ایران اس معاملے کو جانچنے کی کسوٹی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا حالیہ دورہ اسلام آباد دیکھ لیجیے، آپ کو ان کی گفتگو اور باڈی لینگوئج سے یہ نہیں لگے گا کہ وہ پاکستان کو تزویزاتی دشمن یا حریف سمجھتے ہیں۔

صدر ٹرمپ ایک بزنس مین ہیں اور کاروباری لوگوں کی طرح لڑائی کا استعمال ان کے لیے آخری آپشن ہوگا۔ ہمارے خطے میں ان کا بنیادی مقصد چین کی طاقت کو روکنا اور ہندوستان کو چین کے ہم پلہ لا کر چین کو یہیں تک محدود کرنے کی کوشش کرنا ہے۔

مزید پڑھیے: چاہ بہار منصوبہ سی پیک کا حریف نہیں، سابق ایرانی وزیرِ خارجہ

ہمیں انہیں یہ نہیں کرنے دینا، لہٰذا ہمیں چین اور روس کے لیے جنوب ایشیاء کے تھیٹر سے بھی آگ بڑھ کر مشرقِ وسطی کے تھیٹر میں بھی جوڑ توڑ کرنا ہوگا جیسا کہ سعودی عرب امریکا کی خوشنودی کے لیے اسرائیل کو رعایتیں دے کر حاصل کر رہا ہے۔

ہندوستان پر نگاہ رکھنا ہوگی کیوں کہ وہ چاہ بہار پورٹ کے نام پر ایران کو بھی چاکلیٹ دے رہا ہے اور مسئلہ فلسطین پر اپنے دیرینہ مؤقف سے سمجھوتہ کرکے اسرائیل کو بھی لالی پاپ پیش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

دفتر خارجہ اور دیگر پالیسی ساز مقتدر ادارے اگر سی پیک میں ہندوستان کو شمولیت کی دعوت دینے میں کچھ برا نہیں سمجھتے تو چاہ بہار پورٹ پر جواد ظریف کی جانب سے شمولیت کی دعوت کو بھی برا مت جانیے۔

اس چومکھی لڑائی میں کہ جہاں ٹرمپ سا غیر روایتی سیاستدان امریکا کا صدر بن گیا ہو وہاں پاکستان کا ترقی کی راہ پر گامزن ہونا اور باقی رہنا اسی صورت آسانی سے ممکن ہے کہ خطے کے اکثر ممالک کو ہماری مختلف جہتوں میں ضرورت باقی رہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

SHARMINDA Apr 03, 2018 02:08pm
Really balanced article & good advice.
Anam Fatima Apr 03, 2018 02:21pm
A strategic, thought provoking analysis of Trump's geo-politics in the region.
زرغونہ Apr 03, 2018 02:39pm
Very well written.