کراچی: ملک کے مختلف شہروں میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 166 روپے 60 پیسے اور 116 روپے 80 پیسے پر بند ہونے کی وجہ سے ایکسچینج ریٹ پر دباؤ بڑھ گیا۔

بینکنگ ذرائع کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے ایکسچینج کمپنیوں کے ساتھ اجلاس میں ایکسچینج ریٹ کے معاملے پر بحث کی تاہم کرنسی ڈیلرز نے اجلاس کے حوالے سے تفصیلات دینے سے انکار کردیا۔

یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اس معاملے کو خفیہ کیوں رکھا گیا اور کرنسی ڈیلرز کو بحث کے حوالے سے بات کرنے سے کیوں منع کیا تاہم اسٹیٹ بینک کے چیف ترجمان عابد قمر کا کہنا تھا کہ اجلاس میں میڈیا کے لیے کچھ بھی نیا نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اوپن مارکیٹ میں ڈالر 116 روپے تک پہنچ گیا

یہ بات مانی جارہی ہے کہ مقامی کرنسی کی قدر میں کمی اس اجلاس میں بحث کا مرکز تھی کیونکہ ملک میں روپے کی قدر میں گزشتہ 4 ماہ کے دوران 9.5 فیصد کمی نے ڈالرائزیشن کی شروعات کردی ہے۔

ایکسچینج کمپنی ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ عوام ڈالر خرید رہے ہیں کیونکہ یہ اب تک سب سے بہترین سرمایہ کاری ہے۔

بینکوں کے درمیان روپے کی کرنسی مارکیٹس میں قدر میں مزید کمی اور خصوصی طور پر غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کا خوف بڑھ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تجارت کے لیے ڈالر کے بجائے یوآن: حقائق کیا ہیں؟

کرنسی ڈیلرز نے نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست پر ڈان کو بتایا کہ انہیں نگراں حکومت سے خطرہ ہے کیونکہ انہیں سیاسی خطرہ نہیں اور وہ روپے کی قدر میں مزید کمی بھی کرسکتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈیٹا کے مطابق سینٹرل بینک میں موجود غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 40 فیصد تک کمی کے بعد 11.8 ارب ڈالر پر آگئے ہیں۔


یہ خبر 4 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں