اسلام آباد: ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے 5 ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے اور گزشتہ 3 برسوں میں 487 افراد کو سزائے موت دی گئی جبکہ 5 برسوں کے دوران صدر مملکت کی جانب سے 513 رحم کی اپیلوں کو مسترد کیا گیا۔

جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی جانب سے پاکستان میں موت کے قیدیوں پر بنائی گئی رپورٹ ’ کوئی رحم نہیں‘ کی تقریب رونمائی کے موقع پر بتایا گیا کہ 2014 سے سزائے موت پر پابندی ہٹائے جانے کے بعد تقریباً 500 افراد کو پھانسی دی گئی۔

اگرچہ صدر مملکت کو آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت سزائے موت معاف کرنا کا آئینی حق حاصل ہے لیکن دسمبر 2014 کے بعد سے اس طرح کی رحم کی اپیلوں کو مسلسل مسترد کیا گیا۔

مزید پڑھیں: سزائے موت کے مجرم کے ' آخری 72 گھنٹے‘

رپورٹ میں وزیر داخلہ کے بیان کو نقل کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ایوان صدر کی جانب سے 513 رحم کی اپیلیں مسترد کی گئی، جن میں سے 444 پابندی ہٹنے کے بعد ابتدائی 15 ماہ میں کی گئی۔

رپورٹ میں سزائے موت کے قیدی عبدالباسط، عماد علی، محمد اقبال اور انڈونیشیا میں قید پاکستانی شہری ذوالفقار علی کے کیسز کا جائزہ بھی پیش کیا گیا۔

اس دوران رپورٹ کی تقریب رونمائی کے موقع پر موت کا منتظر معذور شخص عبدالباسط کی والدہ نسرت بی بی نے آبدیدہ ہوتے ہوئے صدر مملکت سے سوال کیا کہ ’ وہ کس طرح ایسے شخص کو پھانسی دے سکتے ہیں جو کھڑا تک نہیں ہوسکتا‘۔

انہوں نے کہا کہ ان کے بیٹے کو 2009 میں سزائے موت سنائی گئی تھی لیکن فیصل آباد جیل کی ابتر صورتحال کے باعث اسے ٹیوبرکولر میننگٹس کی بیماری ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ جیل انتظامیہ کی جانب سے اس کے علاج میں ناکامی پر اس کی حالت خراب ہوئی اور اسے ایک ہفتے بعد ڈی ایچ کیو ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں 13 ماہ گزارنے کے باوجود اس کے جسم کا نچلا حصہ معذور ہوگیا۔

خیال رہے کہ عبدالباسط کی جانب سے 2013 میں رحم کی اپیل کی گئی تھی لیکن 2015 میں بغیر کسی تحریری وجہ سے اسے مسترد کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت کا 3 مجرموں کی سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا حکم

اس موقع پر قومی کمیشن برائے انسانی حقوق ( این سی ایچ آر) کے کمشنر چوہدری شفیق کا کہنا تھا کہ پاکستان میں معافی کا عمل بہت محدود ہے اور اسے ملک کے آئین اور انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کے تحت بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کرمنل جسٹس سسٹم کے تحت ملک میں انصاف کی یقین دہانی کے لیے رحم کی اپیل پر صدارتی اختیار اہم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ انسانی حقوق کی سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں اس بات پر غور کیا گیا تھا کہ صدر مملکت کو رحم کی اپیل بھیجنے سے قبل این سی ایچ آر، وزارت قانون اور انصاف، وزارت داخلہ اور وزارت انسانی حقوق ان درخواستوں کا جائزہ لے گا۔


یہ خبر 12 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں