اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے ملزمان کی اپیلوں کی سماعت کرتے ہوئے سزاؤں پر عمل درآمد روک دیا اور فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے۔

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے ملزمان شفقت، صابر شاہ اور محمد لیاقت کی اپیلوں کی سماعت ہوئی۔

ان اپیلوں کی سماعت جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔

عدالت عظمیٰ نے اپیلوں پر سماعت کے دوران ملزمان کی سزاؤں پرعمل درآمد روکتے ہوئے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کی مدت ختم

بعد ازاں عدالت نے اپیلوں کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ ملزم لیاقت پر ایک صحافی پر حملے کا الزام ہے جبکہ شفقت اور صابر شاہ پر لاہور میں ایک وکیل ارشد علی کے قتل کا الزام تھا۔

واضح رہے کہ تینوں ملزمان کو فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔

یاد رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے فوجی عدالتوں سے سزا موت کے قیدیوں کی جانب سے اپیلوں کی سماعت کے دوران سزاؤں پر عمل درآمد روک دیا۔

دسمبر 2014 میں دہشت گردوں کی جانب سے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں 145 سے زائد افراد کو ہلاک کیا گیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں بیشتر اسکول کے طلباء تھے، 2015 میں پہلی مرتبہ دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے فوجی عدالتیں قیام کی گئیں تھی۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں کے فیصلوں کی تفصیلات طلب

پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ 2015 کے تحت وفاقی حکومت کو کسی بھی مقدمے کو فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔

فوجی عدالتوں نے متعدد دہشت گردوں کو سزائے موت سمیت دیگر سزائیں سنائی تھیں اور اس تناظر میں متعدد دہشت گردوں کی سزائے موت پر عمل درآمد بھی کرایا گیا جن میں بیشتر پر سیکیورٹی اہلکاروں پر حملے کا الزام تھا۔

فوجی عدالت کے فیصلوں کے خلاف پہلی اپیل 8 اگست 2015 کو کی گئی تھی جس میں درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے حیدر علی کو 2009 میں 14 سال کی عمر میں گرفتار کیا گیا تھا جبکہ فوجی حکام کے مطالبے پر حیدر علی کو پیش کیا گیا۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق حیدر علی کی گرفتاری کے 6 سال بعد معلوم ہوا کہ حیدر علی لوئر دیر کی تیمرگرہ جیل میں قید ہے۔

اس سے قبل اگست 2015 میں ہی پشاور ہائی کورٹ نے سوات سے تعلق رکھنے والے 10ویں جماعت کے طالب علم حیدر علی کی سزائے موت پر بھی عمل درآمد روکنے کا حکم دیا تھا۔

اس کے علاوہ 29 اگست 2015 میں پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے ملزم کی سزا معطل کردی تھی۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کا قیام:آئینی ترمیمی بل اسمبلی میں پیش

11 جنوری 2016 کو پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے فوجی عدالت کی جانب سے دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائے جانے اور اس پر پشاور ہائی کورٹ کے 9 دسمبر 2015 کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چلینج کردیا تھا۔

11 مئی 2016 کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 3 مجرمان کی سزاؤں پر عمل درآمد روکتے ہوئے اٹارنی جنرل سے مجرمان کی جانب سے درخواست میں لگائے جانے والے الزامات پر جواب طلب کرلیا تھا۔

29 اگست 2016 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول سمیت دہشت گردی کے متعدد واقعات میں ملوث 16 مجرموں کی سزائے موت کے خلاف اپیلیں مسترد کردیں تھی۔

12 جنوری 2017 کو پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے مجرم قاسم شاہ کی سزا پر عمل درآمد پر حکم امتناع جاری کردیا تھا۔

30 مئی 2017 کو سپریم کورٹ کے ایک خصوصی بینچ نے فوجی عدالتوں کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت سے معذرت کر لی تھی۔

8 سال بعد عمر قید کے ملزم کی رہائی کا حکم

دوسری جانب سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایک علیحدہ کیس کی سماعت کرتے ہوئے 8 سال بعد عمر قید کے ملزم کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کیس سچا ہوتا ہے مگر گواہیاں جھوٹی ہوتی ہیں اور بناوٹی شہادتوں کی بنا پر اصل ملزم بری ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر مدعی کی تسلی کو دیکھیں تو عدالتی نظام ہی تباہ ہوجائے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ ملزم کے خلاف کیس ثابت نہ کرسکا جبکہ گواہان کی شہادتوں میں بھی تضاد ہے۔

خیال رہے کہ ملزم شاہ راز کے خلاف تھانہ درگئی ملاکنڈ میں اغوا برائے تاوان کا مقدمہ درج ہوا تھا اور ٹرائل کورٹ نے اسے عمر قید کی سزا سنائی تھی جبکہ ہائی کورٹ نے اپیل پر عمر قید کی سزا برقرار رکھی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں