ماسکو : روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے خبردار کیا ہے کہ شام پر مغربی ممالک کے مزید حملے عالمی معاملات میں کشیدگی کا سبب بنیں گے، جبکہ یہ آثار بھی دکھائی دے رہے ہیں کہ روس اور امریکا اپنے تعلقات میں برسوں سے جاری بدترین بحران کو دور کرنا چاہتے ہیں۔

پیوٹن نے یہ بیان کیمیائی گیس کے مبینہ حملے کے بعد امریکا ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے شام پر میزائل حملے کے بعد ایرانی ہم منصب حسن روحانی سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے دیا۔

کریملن سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق روسی صدر پیوٹن نے ایرانی صدر حسن روحانی سے فون پر بات کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا کہ شام پر امریکا اور مغربی ممالک کی طرف سے کیے جانے والے میزائل حملوں کے باعث 7 برس سے جاری شامی تنازع کے سیاسی حل کے مواقع ختم ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: ’امریکا، شام پر دوبارہ حملہ کر سکتا ہے‘

کریملن بیان کے مطابق پیوٹن نے اس بات پر خاص طور پر زور دیا کہ اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ایسی کارروائیاں جاری رہیں، تو بین الاقوامی تعلقات میں افراتفری کی کیفیت پید اہوگی۔

خیال رہے کہ ایک ہفتہ قبل مبینہ زہریلی گیس کے حملے کے جواب میں امریکا نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی مشتبہ تنصیبات پر میزائل حملے کیے تھے۔

امریکا نے یہ حملہ برطانیہ اور فرانس کی معاونت سے کیا تھا، جس پر تینوں ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ ان حملوں کا مقصد صدر بشار الاسد کو برطرف کرنا یا شام میں جاری تنازع میں مداخلت کرنا نہیں تھا۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کو کامیابی قرار دیا تھا،جبکہ شام اور اس کے اتحادیوں نے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے جارحانہ قرار دیا۔

مزید پڑھیں : شام پر حملہ: مشن کامیابی سے تکمیل کو پہنچا، ٹرمپ

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے شام پر کیے جانے والے حملوں کو مغربی ممالک کی مداخلت قرار دیتے ہوئے ' ناقابل قبول اور غیر قانونی ' قرار دیا تھا۔

صدر پیوٹن کا بیان روس کے ڈپٹی وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف کے مفاہمتی بیان کے بعد آیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ روس مغرب کے ساتھ سیاسی تعلقات بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔

سرگئی ریابکوف نے اقوام متحدہ میں مغربی ممالک کے ساتھ کام کرنے کی روسی تجاویز کے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ تمام موجود مواقع استعمال کرتے ہوئے خطرناک ترین سیاسی حالات کو حل کریں گے۔

دوسری جانب دمشق میں شام کے ڈپٹی وزیر خارجہ فیصل مقداد نے آرگنائزیشن فار دی پروہبیشن آف کیمیکل ویپن (او پی سی ڈبلیو) کے سیکیورٹی افسران سے تقریباً 3 گھنٹے طویل ملاقات کی، اس موقع پر روس اور شام کے سینئر سیکیورٹی حکام بھی موجود تھے۔

او پی سی ڈبلیو کے افسران نے 7 اپریل کو دوما میں ہونے والے مبینہ گیس حملے کی تحقیقات کی، جس کے متعلق طبی امدادی تنظیموں کا کہنا تھا کہ اس حملے میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے۔

روس نے مغربی ممالک کی طرف سے حملے سے قبل آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپن کی تحقیقات کے انتظار پر انکار کی مذمت کی۔

روس نے دوما میں کیے گئے حملے کے الزامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملے برطانیہ کی طرف سے روس کا منفی تاثر قائم کرنے کے لیے کیے گئے۔

واضح رہے کہ برطانیہ اور امریکا نے کہا تھا کہ مغرب کشیدگی میں کمی کو ترجیح دیتا ہے، دونوں ممالک نے یہ بھی کہا کہ ہفتہ کو کی جانے والی کارروائی کا ہدف بشار الاسد اور پیوٹن نہیں بلکہ کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات تھیں۔

یہ بھی پڑھیں : امریکا کو شام میں حملے کے نتائج بھگتنا ہوں گے، روس

بی بی سے بات کرتے ہوئے برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ بورس جانسن نے کہا کہ مغربی طاقتوں کا شام پر مزید میزائل حملوں کا ارادہ نہیں، لیکن شام نے دوبارہ کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تو اس حوالے سے حکمت عملی طے کی جائے گی۔

حملوں کے حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ یہ حکومت تبدیل کرنے کے لیے نہیں تھے، نہ ہی شام میں جاری تنازع کا رخ بدلنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صرف روس ہی واحد ملک تھا، جو اسد کے خلاف تنازع کے خاتمے کے بارے میں بات چیت کرنے کے قابل تھا۔

دوسری جانب امریکی سفیر نکی ہیلی نے امریکا روس تعلقات کے سوال پر کہا کہ تعلقات بہت کشیدہ ہیں، لیکن واشنگٹن کو اب بھی بہتر تعلقات کی امید ہے۔

نکی ہیلی نے کہا کہ جب تک مقاصد پورے نہیں جاتے، اس وقت تک امریکا شام سے فوجیوں کو واپس نہیں بھیجے گا۔

نکی ہیلی نے کے 3 مقاصد بتاتے ہوئے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا خاتمہ یقینی بنانا، کیونکہ اس سے امریکا کے مفادات کو خطرہ ہے، داعش کو شکست دینا جبکہ ایران کے مقاصد اور سرگرمیوں پر نظر رکھنا شامل ہے۔

روسی نیوز ایجنسی کے مطابق شام کے صدر بشارالاسد نے روسی قانون سازوں کے ایک وفد سے ملاقات میں شام پر مغربی میزائل حملوں کو جارحیت قرار دیا۔

شام نے ایک ویڈیو جاری کی، جس میں بم دھماکے سے تباہ ہونے والی تحقیقاتی لیبارٹری کو دیکھا جا سکتا ہے، دوسری جانب شام کے صدر بشار الاسد کے روزمرہ امور کی ویڈیو بھی سامنے آئی، بم دھماکے میں ہلاکتوں کی رپورٹ فوری طور پر سامنے نہیں آئی۔

روس کے ایجنسیوں نے شام کے قانون سازوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بشار الاسد نے ' اچھے موڈٓ ' میں سوویت دور کے فضائی دفاعی نظام کی تعریف کی، جو شام نے مغربی حملوں کے دفاع میں استعمال کیا، اس کے ساتھ ہی انہوں نے روس کے دورے کی دعوت بھی قبول کی، تاہم اس کا وقت معین نہیں کیا گیا۔


یہ خبر 16اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں