لاہور: بچوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے قائم اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی 92 لاکھ بچیوں میں سے 50 لاکھ 3 ہزار بچیاں اسکول جانے سے محروم ہیں۔

انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ پالیسی سائنسز (آئی ایس اے پی) کے تحت منعقدہ ایک پالیسی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے یونیسیف کی ماہر تعلیم روبینہ ندیم نے صوبہ پنجاب میں تعلیم کی تشویشناک صورتحال سے آگاہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے حوالے سے مرتب کردہ فہرست میں نائجیریا کے بعد پاکستان کا دوسرا نمبر ہے، جبکہ پاکستان کے تمام صوبوں میں سب سے خراب صورتحال پنجاب کی ہے۔

اس ضمن میں ماہر تعلیم نے مزید بتایا کہ گزشتہ سالوں میں صوبے میں معیاری تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے کئی اقدامات اٹھائے گئے، تاہم صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر وہ اقدامات ناکافی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: تعلیمی معیار میں پنجاب تیسرے،خیبرپختونخوا پانچویں نمبر پر ہے،رپورٹ

ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبے میں تعلیم تک رسائی کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں، جس میں دشوار راستے، محل وقوع، قومیت، غربت اور ابتدائی سالوں میں بچوں کا اسکول چھوڑ دینا شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بچے کی تعلیم تک رسائی کو محدود کرنے کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے، ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں 31 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

اس موقعے پر گفتگو کرتے ہوئے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن (پی ای ایف) کے چیئرمین اسلام راجہ کا کہنا تھا کہ ایک کروڑ 15 لاکھ بچے سرکاری اسکول میں داخل ہوئے، جبکہ 30 لاکھ بچوں نے پی ای ایف کے زیر انتظام اسکولوں میں داخلہ لیا، حکومت نے آرٹیکل 25 اے کے نفاذ کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں، تاہم اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 400 ارب روپے تعلیم کے لیے مختص کیے جائیں گے۔

اسی سلسلے میں آئی ایس اے پی کے سینئر تحقیق دان احمد علی کا کہنا تھا کہ اسکول نہ جانے والے 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کی تعداد اور ضلعی سطح پر فی بچہ اخراجات میں واضح فرق ہے، صرف رحیم یار خان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح 47 فیصد ہے، اس ضمن میں سب کو مل کر کام کرنا ہوگا تا کہ معیاری تعلیم کی سہولت تک ہر بچے کی پہنچ ممکن ہوسکے۔

مزید پڑھیں: خواتین کا عالمی دن: بلوچستان کی لڑکیاں تعلیم میں پیچھے کیوں؟

ادھر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں ’بیسک ٹیکنیکس ان فارینسیک پیتھالوجی‘ کے عنوان کے تحت ہونے والی تین روزہ ورکشاپ کے آخری روز، وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد شوکت نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈاکٹرز میں عدم دلچسپی کی باعث فارینسیک پیتھالوجی کا شعبہ نظر انداز ہورہا ہے‘۔

پروفیسر شوکت کا مزید کہنا تھا کہ مفادِ عامہ کے پیپش نظر فارینسیک پیتھالوجسٹ کو نہایت قابل اور ماہر ہونا چاہیے، اور اس سلسلے میں نظام کی بہتری کو یقینی بنانے کے لیے طویل مدتی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، انہوں نے ڈاکٹرز پر زور دیا کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ مہارت میں اضافہ کر کے فارینسیک پیتھالوجی میں فرسودہ طریقے ختم کریں، خاص طور پر پوسٹمارٹم کے طریقہ کار میں بہتری لائی جائے۔

اس موقعے پر مشہور پیتھا لوجسٹ پروفیسر اے ایچ ناگی نے خطاب کرتے ہوئے پوسٹ مارٹم کو ایک سائنس قرار دیتے ہوئے کہا کہ فارینسیک پیتھالوجی، ڈاکٹری تعلیم کا ایک اہم جز ہے، لیکن اس کے ساتھ اس کی بنیادی تربیت بھی فراہم کی جانی چاہیے۔

ورکشاپ کے دیگر مقررین میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے شعبہ پیتھالوجی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نادیہ نسیم، شعبہ فارینسیک سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر اللہ رکھا اور نامور پیتھا لوجسٹ ڈاکٹر آئی اے نوید شامل تھے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 26 اپریل 2018 کو شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں