سری نگر: بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں قابض فورسز کی جانب سے پر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہیں جبکہ حال ہی میں مسلح افراد نے سابق پولیس افسر اور بی جے پی کے موجودہ متحرک کارکن زبیر پارے کو قتل کردیا۔

اس سے قبل 25 اپریل کو بھی سری نگر کے علاقے حیدر پورا میں نامعلوم مسلح افراد نے جموں اور کشمیر پولیس سے تعلق رکھنے والے گارڈ پر حملہ کیا تھا، جس کے بعد پولیس کا کہنا تھا کہ ملزمان پولیس کی 4 سرکاری رائفلز چھین کر باآسانی فرار ہوگئے، جس کے بعد سری نگر میں دوبارہ مسلح کارروائیوں کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

اس سے قبل 23 مارچ کو نماز جمعہ کے بعد ایک کشمیری نوجوان لاپتہ ہوگیا تھا، جس کے کچھ گھنٹوں بعد خبر ملی کہ مذکورہ نوجوان، کشمیر کی سب سے بڑی عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کرچکا ہے، مذکورہ نوجوان کا نام جنید اشرف صحرائی تھا اور وہ یونیورسٹی آف کشمیر میں ایم بی اے کا طالب علم تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی فوجی کی حزب المجاہدین میں شمولیت، پولیس کا دعویٰ

دوسری جانب جنید کے والد خود بھی تحریک حریت کے نو منتخب چیئرمین ہیں، جو کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی مقبول جماعت آل پارٹیز حریت کانفرنس کی ذیلی تنظیم ہے۔

پولیس کے مطابق جنید گزشتہ 3 برس سے کم عرصے میں عسکری تنظیم میں شامل ہونے والا 10واں فرد تھا، جس کے بعد یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا مقبوضہ وادئ میں عسکریت پسندی دوبارہ قدم جما رہی ہے؟

انسپکٹر جنرل آف کشمیر سوایم پرکاش کا کہنا تھا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ سری نگر میں عسکریت پسندی واپس آرہی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ شہری علاقوں میں عسکریت پسندی کی کوئی گنجائش نہیں کیوں کہ شہری علاقوں میں بہتر سماجی اور معاشی صورتحال کے پیش نظر اس قسم کی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔

مزید پڑھیں: بھارتی فورسز کی کشمیری نوجوانوں سے بات چیت کی کوشش

خیال رہے کہ سری نگر میں نئے شاپنگ مالز، ہوٹلز اور تفریحی مراکز کے قیام سے شہری زندگی میں جدّت تو آئی ہے تاہم عسکریت پسندی بھی سری نگر کے باسیوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں۔

ایک سینئر پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ عموماً ’عسکریت پسندوں سے پاک‘ ہونے کا غلط مطلب اخذ کرلیا جاتا ہے، شہری اور دیہی علاقوں میں عسکریت پسندی کی شکل مختلف ہے، بارہ مولا اور سری نگر جیسے شہری علاقوں کے عوام نہ تو خود عسکری کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں اور نہ ہی عسکریت پسندوں کے لیے سہولت فراہم کرتے ہیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق سال 2007 سے 2014 تک سری نگر کو عسکریت پسندی سے پاک علاقہ سمجھا جاتا تھا لیکن اب صورتحال مختلف ہے، 2016 میں حریت پسند نوجان رہنما برہان وانی کی بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہادت کے بعد وادئ میں نوجوانوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور اس واقعے سے شہری علاقوں کے نوجوانوں پر بھی اثر پڑا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر: بھارتی فوج کی فائرنگ سے 17 نوجوان جاں بحق

خیال رہے کہ حزب المجاہدین کے شہید کمانڈر برہان وانی کم عمر نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، جو مقامی طور پر مسلح جدو جہد کے حوالے سے بہت معروف ہوئے۔

پولیس کے مطابق برہان وانی نے کشمیر میں عسکریت پسندی کو نئی روح فراہم کی اور سوشل میڈیا اس سلسلے میں سب سے موثر آلہ کار ثابت ہوا۔

اس ضمن میں پولیس نے مزید بتایا کہ سوشل میڈیا نے نوجوانوں کی عسکری تنظیموں میں بھرتی میں اہم کردار ادا کیا، حتیٰ کہ انجینئرنگ اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی، پوسٹ گریجویٹ ڈگریوں کے حامل نوجوان بھی اس میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔

ایک انگریزی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق 80 فیصد عسکریت پسندوں کا تعلق کشمیر کے جنوبی علاقوں سے ہے جہاں سے ایک ماہ کی قلیل مدت میں 28 نوجوان مختلف عسکری تنظیموں کا حصہ بن چکے ہیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 30 اپریل 2018 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں