اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے سفیر نے میانمار پر زور دیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مبینہ مظالم کی ’مکمل تحقیقات‘ کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق میانمار میں پناہ گزینوں اور دائیں بازوں کے گروہوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ میانمار کی فوج اور نگران لوگوں کی جانب سے رخائن ریاست میں ’کلیئرنس آپریشن‘ کے دوران عام شہریوں کو قتل اور ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے گاؤوں کو آگ لگا دی گئی۔

اس معاملے پر اقوام متحدہ کی جانب سے بھی کئی مرتبہ بیان دیا گیا جبکہ اس آپریشن میں نسل کشی کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے، اقوام متحدہ

تاہم اپنے دو روزہ دورے کے دوران اقوام متحدہ کے وفد نے رخائن ریاست کا دورہ کیا اور سول رہنما آنگ سانگ سوچی اور سینئر جنرل آنگ ہلینگ سے بھی ملاقات کی۔

دورے کے دوران سفارتکاروں نے رخائن اور بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپوں کا بھی دورہ کیا، اس موقع پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے لیے برطانوی سفیر کیرن پیرسی کا کہنا تھا کہ ’احتساب کے لیے ضروری ہے کہ وہاں مناسب تحقیقات کی جائیں اور تحقیقات کے لیے دو طریقہ کار ہیں، پہلا یہ کہ اس معاملے کو انٹرنیشل کرمنل کورٹ بھیج دیا جائے یا پھر میانمار کی حکومت اس معاملے کی جامع تحقیقات کرے۔

انہوں نے کہا کہ آنگ سانگ سوچی روہنگیا کے معاملے پر ملک سے باہر بات کرنے میں ناکام رہی تھی اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ جہاں مظالم کے ثبوت ملے وہاں مکمل تحقیقات کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ آیا یہ تحقیقات مقامی ہو یا بین الاقوامی لیکن یہ معتبر ہونی چاہیے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے سفیروں سے ملاقات کے دوران آرمی چیف نے ان کی فورسز پر لگنے والے ریپ اور جنسی تشدد کے الزامات کو مسترد کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار کی فوج کا روہنگیا مسلمانوں کے قتل کا اعتراف

آرمی چیف نے کہا کہ ان کی ہمیشہ نظم و ضبط کے ساتھ رہتی ہے اور قانون توڑنے پر ہر کسی کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔

خیال رہے کہ بنگلہ دیش میں موجود روہنگیا خواتین اور لڑکیوں کی جانب سے مسلسل جنسی تشدد کی شکایات کے حوالے سے معلومات فراہم کی جارہی تھی جبکہ ان کی تصدیق اس تنازع کی نگرانی کرنے والوں کی جانب سے بھی کی گئی تھی.

تاہم میانمار کے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ان کی فوج کی ’جنسی استحصال کی کوئی تاریخ نہیں اور یہ ہمارے ملک میں ثقافت اور مذہب کے مطابق ناقابل برداشت ہے اور اگر اس جرم میں کوئی بھی ملوث پایا گیا تو اسے سزا دی جائے گی‘۔

تبصرے (0) بند ہیں