قومی اسمبلی نے خواتین کے خلاف نازیبا ریمارکس دینے پر مسلم لیگ کے رہنما اور پنجاب وزیرقانون راناثنااللہ کےخلاف پا کستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری کی قرار داد مذمت متفقہ طور پر منظور کر لی۔

اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ خواتین کسی بھی گھرانے سے ہو وہ قابل احترام ہیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے ایاز صادق نے کہا کہ کل شب برات تھی، اللہ سے معافی مانگی، اب اراکین سے بھی معافی چاہتا ہوں، باقی لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ غلطیوں کی معافی مانگیں۔

قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے رانا ثنا اللہ کے خواتین کے بارے دیے گئے بیان کا معاملہ اٹھایا اور معاملے پر بحث کے لیے اسپیکر نے اجازت دی تو پی ٹی آئی کی شیریں مزاری نے مذمتی قرار داد پیش کی۔

شیریں مزاری کی قرار داد کو ایوان نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔

اس سے قبل معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے وزرا خواتین کو گالیاں دیتے ہیں، جب ایوان میں میرے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے تھے اگر اس وقت سخت کارروائی ہوتی تو شاید آج یہ نہ ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان الفاظ پر معافی مانگی جائے اور برداشت کا امتحان نہ لیا جائے۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی رکن شازیہ مری نے کہا کہ کسی کو طعنہ دینا ہو کہا جاتا ہے چوڑیاں پہن لو، چوڑی پہننا کوئی گالی نہیں ہے، جس جماعت کے لوگوں نے بیانات دیے اس جماعت کو شوکاز نوٹس جاری کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو ہراساں کرنا اب قومی مسئلہ ہے۔

رکن اسمبلی طاہرہ اورنگ زیب نے رانا ثنا اللہ کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ خاتون ماں، بہن اور بیٹی ہے، شہباز شریف نے معافی مانگی اور مذمت بھی کی، اس لے معاملے کو ختم کر دینا چاہیے۔

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی رکن اسمبلی عائشہ سید کا کہنا تھا کہ خواتین کی عزتوں کو اداروں میں اچھالا جا رہا ہے۔

اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ ایوان خواتین کا احترام کرتا ہے، جو خواتین کا احترام نہیں کرتا اس کی مذمت کرتا ہوں۔

پنجاب اسمبلی میں مذمتی قرارداد جمع

قبل ازیں صوبائی وزیر قانون اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ کے خواتین سے متعلق نازیبا الفاظ کے خلاف پنجاب اسمبلی میں ایک اور مذمتی قرارداد جمع کرادی گئی۔

رانا ثنا اللہ کے خلاف مذمتی قرار داد مسلم لیگ (ق) کے چوہدری عامر سلطان چیمہ کی جانب سے جمع کرائی گئی۔

قرار داد کے متن کے مطابق نہ صرف ووٹ کو عزت دو بلکہ خواتین کو بھی عزت دو، اس میں مزید کہا گیا کہ صنف نازک کا احترام اسلامی، اخلاقی اور مذہبی طور پر ہم سب پر لازم ہے۔

قرار داد میں مزید کہا گیا کہ وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے خواتین سے متعلق جن گھٹیا خیالات کا اظہار کیا ہے اس کی مذمت کرتے ہیں جبکہ ان کے اس بیان سے ملک بھر کی خواتین میں سخت غم وغصہ پایا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: پنجاب حکومت کی پی ٹی آئی خواتین کے خلاف نازیبا الفاظ کی مذمت

اس میں مطالبہ کیا گیا کہ رانا ثناء اللہ اپنے بیان پر معافی مانگیں۔

قرارداد میں مزید مطالبہ کیا گیا ہے کہ رانا ثناء اللہ سمیت تمام سیاستدانوں کو پابند کیا جائے کہ وہ کسی بھی عورت سے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کرنے سے گریز کریں۔

علاوہ ازیں خواتین سے متعلق رانا ثناء اللہ کے بیان کے خلاف خاتون محتسب کو درخواست جمع کروائی گئی۔

درخواست میں کہا گیا کہ خواتین اپنے گھر بار چھوڑ کر جلسے میں شرکت کے لیے آئی تھیں، درخواست میں خواتین کا کہنا تھا کہ رانا ثناء اللہ نے جو بدزبانی کی اس کی بھرپور مذمت کرتی ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ خواتین کی سیاسی جدوجہد کو جھٹلایا نہیں جاسکتا، رانا ثناءاللہ نے معافی نہیں مانگی، ہم ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’عمران خان ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں‘

درخواست میں کہا گیا کہ امید ہے خاتون محتسب غیر جانبداری سے کام لے کر انصاف کریں گے جبکہ رانا ثناء اللہ چاہتے ہیں کہ خواتین دب جائیں مگر ہم مزید جوش و جذبے سے کام کریں گی۔

گزشتہ روز پی ٹی آئی جلسے میں شریک خواتین کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے پر رانا ثناءاللہ کے خلاف مذمتی قرار داد پنجاب اسمبلی میں پیش کی گئی تھی۔

تحریک انصاف کی جانب سے پیش کی جانے والے اس قرار داد میں کہا گیا کہ سیاسی مخالفین کے خلاف گندی زبان کا استعمال کرنا صوبائی وزیر قانون کا وطیرہ بن چکا ہے۔

خیال رہے کہ حکومتِ پنجاب نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں رانا ثناء اللہ، طلال چوہدری اور عابد شیر علی کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے منسلک خواتین کے خلاف نازیبا الفاظ کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے ان سے لاتعلقی کا اعلان کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’اسٹیبلشمنٹ کےجھولے میں جھولنے والی (ن)لیگ ہمیں جمہوریت کا سبق دےرہی ہے‘

یاد رہے کہ دو روز قبل پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے پی ٹی آئی کے لاہور میں ہونے والے جلسے میں شریک خواتین سے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ’جن خواتین نے پی ٹی آئی کے جلسے میں شرکت کی ہے وہ کسی معزز گھرانے سے نہیں ہیں کیونکہ ان کے رقص کے انداز سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اصل میں کہاں سے ہیں؟‘

بعد ازاں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ’رانا ثناء اللہ اور دوسرے کردار، شریفوں کی ذہنیت اور ان کی نظر میں خواتین کے مقام و حرمت کی عکاسی کرتے ہیں‘۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اور سیکریٹری اطلاعات مولا بخشن چانڈیو نے رانا ثناء اللہ کے بیان پر انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’بہت ہوگیا، اب خواتین کی تذلیل مزید برداشت نہیں کی جائے گی‘۔

دوسری جانب وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے اپنے بیان پر ہونے والی تنقید پر رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں عمومی بات کررہا تھا جس کو ذاتی طور پر نشانہ نہیں بنایا اور جلسے کا 2011 کے جلسے سے موازنہ کررہا تھا۔

وزیرقانون پنجاب نے کہا کہ عمران خان پہلے عائشہ گلالئی کے بیان پر آکر معافی مانگ لیں تو میں بھی اپنے بیان پر معذرت کر لوں گا۔

تبصرے (0) بند ہیں