’بولی وڈ کیلئے گائیکی چھوڑنا مداحوں سے ناانصافی ہوگی‘

اپ ڈیٹ 19 مئ 2018
عاطف اسلم کا شمار پاکستان کے کامیاب گلوکاروں میں کیا جاتا ہے —۔
عاطف اسلم کا شمار پاکستان کے کامیاب گلوکاروں میں کیا جاتا ہے —۔

پاکستانی گلوکار عاطف اسلم اگر اپنی منفرد آواز میں گانے کے چند بول ہی گا دیں تو شائقین انہیں سن کر شور مچانا شروع کردیتے ہیں۔

مداح عاطف کے ساتھ مل کر گاتے ہیں، پھر چاہے نوجوان ہوں یا بزرگ، مرد ہوں یا خواتین، وہ اپنے موبائل فونز سے ویڈیوز بناتے ہیں اور پھر اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں، انہیں ہر گانے کے بول معلوم ہیں، چاہے پرانے ہوں، کوک اسٹوڈیو کے کامیاب گانے، یا پھر بولی وڈ فلمز کے گانے ہوں، مداح ایک سے زائد گھنٹوں کے لیے صرف عاطف اسلم کی منفرد آواز سننے کے لیے ان کنسرٹس میں کھڑے رہتے ہیں۔

آج کے سوشل میڈیا کے دور میں ہمارے درمیان عاطف اسلم جیسے اسٹارز بہت کم ہی ہیں، ایسے اسٹارز جن کی فین فالوونگ کسی ایک عمر کے افراد تک محدود نہیں، جو ایک کے بعد ایک ہٹ گانیں ریلیز کرے، اور وہ جس کی مقبولیت صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بھارت میں بھی اتنی ہی زیادہ ہو، وہ جو بھارت میں پابندی کے باوجود بھی پہلے کی طرح ہی بولی وڈ کا حصہ بنا رہے، یقیناً عاطف اسلم ایک انوکھے میوزیکل سپراسٹار ہیں۔

عاطف اسلم آج بھی پہلے جیسے ہی نظر آتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی مقبولیت کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتے، گلوکار کے مطابق ’میرے کام کا بہت مصروف شیڈول ہے، میں اچھا کھانا نہیں کھا پاتا، راتوں میں بھی کام کرتا ہوں، لیکن صرف اس لیے کہ میں وہ کررہا ہوں جس سے مجھے خوشی ملتی ہے‘۔

اپنے ساتھی گلوکاروں کے برعکس عاطف اپنے لکس پر زیادہ فوکس نہیں کرتے، انہیں شیو کرنے کا بھی وقت نہیں ملتا، وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ عموماً بہت بری سیلفیز لیتے ہیں، لیکن اس بات سے عاطف کو کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ ’ہم ہر وقت اچھے نظر نہیں آسکتے‘۔

ایک اسٹار ہونے کے علاوہ عاطف اسلم ایک چار سالہ بیٹے کے والد ہیں جو رات میں ان کے ساتھ عبادت کرتا ہے اور تاجدار حرم سن کر ہر رات سوتا ہے۔ عاطف کا کہنا ہے کہ ’میوزک بنانا میرے لیے خاص ہے، نہ ہی ایوارڈز، نہ انٹرنیٹ کی مقبولیت اور نہ ہی بہت زیادہ پیسا، میرے مداح خود کو عادیز کہتے ہیں، میں ان کے لیے میوزک بناتا ہوں اور میں اپنے مداحوں سے بےحد محبت کرتا ہوں‘۔

لیکن اپنے کیریئر کے اس موڑ پر بھی ایسا بہت کچھ ہے جو عاطف کو پسند نہیں، جس کا ذکر انہوں نے ڈان کو دیے اس انٹرویو میں کیا۔

ڈان: آپ حال ہی میں بھارت میں پاکستانی فنکاروں پر لگنے والی پابندی کے باعث نیوز میں رہے، آپ کو بولی وڈ کی کئی فلموں میں گانے گانے کا کریڈٹ نہیں دیا گیا، بعدازاں سلمان خان نے زور دیا کہ صرف آپ ہی ان کی آنے والی فلم ریس 3 کا گانا گا سکتے ہیں، ایسے چند فنکاروں میں شمار ہونے پر کیسا محسوس ہوتا ہے جن کے کیریئر کو بھارت میں لگی پابندی سے بھی کوئی فرق نہیں پہنچا؟

عاطف: کام کام ہے، میں صرف اچھے گانے گانا چاہتا ہوں، وہ کسی بھی پروجیکٹ کے لیے ہوسکتے ہیں، مجھے کچھ گانوں کا کریڈٹ نہیں ملا، مجھے اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، میرے مداح جانتے ہیں کہ ان گانوں میں آواز میری ہی ہے، سیاست کے باوجود ریس 3 میں گانا گانے کے لیے میرا انتخاب کیا گیا، اس لیے نہیں کیوں کہ میں ان لوگوں سے رابطے میں ہوں بلکہ اس لیے کیوں کہ فلم سازوں کو میرا کام پسند ہے۔

ڈان: لیکن آپ کو نہیں لگتا کہ کسی ایسے گانے پر کریڈٹ نہ دینا ناانصافی ہے جس کی گلوکاری آپ نے کی ہو؟

عاطف: میں صرف یہ جانتا ہوں کہ بھارت میں میرے بہت مداح موجود ہیں، اور یہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی اگر میں وہاں گانے گانا چھوڑ دوں، اور بہت سی چیزیں ہیں جن میں ناانصافی ہوتی ہے، میں ہر بات کے لیے احتجاج نہیں کرسکتا۔

ڈان: آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ لوکل ایوارڈ سسٹم میں ناانصافی کی جاتی ہے۔

عاطف: لوکل ایوارڈز بالکل غلط ہیں، ہر وہ شخص جو ایوارڈز کی تقریب میں موجود ہو، اسے ایوارڈ دے دیا جاتا ہے، ایک آرٹس جو پورے سال شاندار کام کرتا رہا یا نمبر ون رہا، وہ صرف اس لیے ایوارڈ نہیں جیت پاتا کیوں کہ وہ وہاں موجود نہیں یا اس کی صحیح لوگوں سے دوستی نہیں، یہ مایوس کن بات ہے، اور نئے فنکاروں کی حوصلہ شکنی ہے۔

ڈان: تو ایوارڈز جیتنا اب آپ کے لیے بالکل اہم نہیں؟

عاطف: نہیں، لیکن ایک وقت تھا، جبکہ جب میں نے شروعات کی تھی، جب میں سوچتا تھا کہ مجھے ایوارڈز جیتنے ہیں اور اپنے فیملی کو ملک کے لیے کچھ کرنا ہے، لیکن اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ صرف تقریر کرنے کا ایک موقع ہوتا ہے، اس کے علاوہ ان تقریبات میں کوئی صداقت نہیں، میں اصل زندگی میں زیادہ خوش ہوں، مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ انسٹاگرام پر میری پوسٹ کو کتنے لوگوں نے لائک کیا۔

ڈان: یہی وجہ ہے کہ آپ اس سال لکس اسٹائل ایوارڈز کا حصہ نہیں بنے، جبکہ آپ نے گزشتہ سال اس شو کی میزبانی تک کی تھی؟

عاطف: مجھے لکس ایوارڈز میں شرکت کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن میں اس سال اس تقریب کا حصہ اس لیے نہیں بنا کیوں میں اس انداز سے اتفاق نہیں کرتا جس طرح اس پلیٹ فارم پر بچوں پر ہونے والے تشدد جیسے معاملے کو پیش کیا گیا، بہتر ہوتا اگر یہ فنڈز جمع کرتے، لیکن مجھے یہ طریقہ پبلسٹی اسٹنٹ لگا، اور میں اس کا حصہ نہیں بن سکتا۔

ڈان: آپ نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ملنے والی مقبولیت آپ کے لیے اہم نہیں، اس کے باوجود آپ اپنے انسٹاگرام اور ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کافی ایکٹو ہیں، ایسا کیوں؟

عاطف: میں سوشل میڈیا پر ملنے والی مقبولیت کے پیچھے پاگل نہیں ہوں، لیکن میرا ماننا ہے کہ یہ اپنے مداحوں سے جڑے رہنے کا اچھا ذریعہ ہے، اگر میں چند روز کچھ پوسٹ نہ کروں تو وہ پریشان ہوجائیں گے، مجھے ان کے کمنٹس پڑھنے میں مزح آتا ہے۔

ڈان: کیا آپ کوک اسٹوڈیو کے اگلے سیزن میں گانا گائیں گے؟

عاطف: ابھی میں نے اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

ڈان: آپ کوک اسٹوڈیو میں کئی بار پرفارم کرچکے ہیں، آپ نے روہیل حیات کے ساتھ بھی کام کیا اور اسٹرنگز کے ساتھ بھی، کس کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ مزاح آیا؟

عاطف: مجھے روہیل کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ مزاح آیا، مجھے امید ہے وہ یہاں واپسی کریں۔

ڈان: کیا آپ کو لگتا ہے علی حمزہ اور زوہیب قاضی کوک اسٹوڈیو کے پلیٹ فارم کے ساتھ نئے پروڈیوسر ہونے کی حیثیت سے انصاف کرپائیں گے؟

عاطف: دیکھتے ہیں، یقیناً وہ شو میں نیا دلچسپ میوزک لائیں گے، مجھے علی حمزی کا گانا تنک دھن پسند آیا تھا۔

ڈان: گزشتہ سال آپ پیپسی بیٹل آف دی بینڈز کا بھی حصہ بنے، اور اس بار آپ اس شو کا حصہ نہیں بن رہے، ایسا کیوں؟

عاطف: مداحوں کے درمیان میں اس شو کا سب سے مقبول جج تھا، لیکن ایسا شو کے مالکان لیے نہیں تھا، شاید میں انہیں کافی مہنگا لگا، یہ ان کا شو ہے ان کی مرضی۔

تبصرے (0) بند ہیں