پشاور ہائیکورٹ نے فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے مجرم عزت خان کی سزائے موت پر عمل درآمد روکتے ہوئے وزارت دفاع سے کیس کا ریکارڈ طلب کرلیا۔

پشاور ہائی کورٹ میں جسٹس روہل امین خان چمکانی اور جسٹس سید اصفر شاہ نے سوات کے علاقے شامزئی سے تعلق رکھنے والے عزت خان کی سزا کے خلاف اس کی بیوی نرگس بانو کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔

درخواست گزار کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ ان کے شوہر نے 11 اپریل 2010 کو سیکیورٹی فورسز کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے، جس کے بعد سے وہ ان کی حراست میں ہے۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالت سے مجرم قرار پانے والے کی سزا معطل

نرگس بانو کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ ان کے شوہر عزت خان بے گناہ ہیں اور فوجی عدالت کی جانب سے کیا جانے والا ٹرائل منصفانہ نہیں تھا۔

خیال رہے کہ 5 مئی 2018 کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے عزت خان سمیت 11 دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کردی۔

آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا تھا کہ سزا پانے والا مجرم کالعدم تنظیم کا رکن تھا اور یہ بے گناہ شہریوں کے قتل، پاکستان کی مسلح افواج پر حملے اور مالاکنڈ یونیورسٹی پر ہونے والے حملے میں ملوث تھا۔

خیال رہے کہ مالاکنڈ یونیورسٹی پر حملے میں ایک شہری جاں بحق، 4 پولیس اہلکاروں سمیت 7 دیگر افراد زخمی ہوئے تھے۔

پاک فوج کے ترجمان کے بیان میں کہا گیا تھا کہ سزا پانے والا مجرم 3 مختلف تعلیمی اداروں کی تباہی میں بھی ملوث ہے اور وہ اپنے جرم کا اعتراف جوڈیشل مجسٹریٹ اور ٹرائل کورٹ کے سامنے کرچکا ہے۔

دوسری جانب درخواست گزارکے وکیل محمد عارف جان نے عدالت کو بتایا کہ مجرم کو فورسز کے مطالبے پر 2010 میں حوالے کیا گیا تھا اور اس کے اہل خانہ نے فورسز کو ہتھیار ڈالنے کا سرٹیفکیٹ بھی دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ عزت خان کے اہل خانہ کو کہا گیا تھا کہ اسے کچھ دن میں چھوڑ دیں گے، تاہم مجرم کو پہلے لکی مروت کے حراستی مرکز میں رکھا گیا، بعد ازاں انہیں سوات کے ایک مرکز میں منتقل کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: فوجی عدالت کا 14 ملزمان کے خلاف عمر قید کی سزا کا فیصلہ معطل

انہوں نے بتایا کہ سزا پانے والے عزت خان کے اہل خانہ کو پہلے ان سے ملنے کی اجازت دی جاتی تھی لیکن تقریباً 8 ماہ سے انہیں ملنے نہیں دیا گیا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ انہیں اور اہل خانہ کو عزت خان کی سزا کے بارے میں میڈیا کے ذریعے پتہ چلا، ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ کئی مرتبہ درخواست دینے کے باوجود متعلقہ انتظامیہ نے کیس کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا۔

بعد ازاں عدالت نے وزارت داخلہ کو اس کیس سے متعلق ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے 22 مئی تک کیس کی سماعت ملتوی کردی۔


یہ خبر 15 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں