پشاور: صوبہ خیبرپختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور جماعت اسلامی کے صوبائی امیر سینیٹر مشتاق احمد خان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات کے ساتھ ہی قبائلی علاقوں (فاٹا) میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بھی انتخابات منعقد کروائیں۔

خیال رہے کہ قبائلی علاقے جو اب صوبہ خیبرپختنوخوا کا حصہ بن گئے ہیں وہاں 2018 کے انتخابات کے بعد ایک سال کے عرصے میں انتخابات منعقد کیے جائیں گے۔

اس حوالے سے ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پرویز خٹک نے 2 روز قبل چیف ایگزیکیوشن کمشنر کو خط لکھا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ 31 ویں آئینی ترمیم نے پارلیمان اور صوبائی اسمبلی سے ضروری رضامندی حاصل کرلی تھی۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت کے دستخط سے قبائلی علاقے، خیبرپختونخوا کا حصہ بن گئے

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 106 میں ترمیم کی گئی جس کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی کی ساخت میں تبدیلی ہوگئی ہے اور آرٹیکل 106 (1) کے تحت مقننہ کی نئی طاقت 145 ممبران پر مشتمل ہوگی، جس میں 115 جنرل نشستیں، 26 خواتین کی مخصوص نشستیں اور 4 نشستیں غیر مسلموں کے لیے ہوں گی۔

اسی طرح فاٹا کی خیبرپختونخوا اسمبلی میں نمائندگی کے لیے 14 جنرل نشستیں، 4 خواتین کی نشستیں اور ایک اقلیتی نشست ہوگی۔

اپنے خط میں انہوں نے آئین کے آرٹیکل 106 (1 اے) کا حوالہ دیا، جس کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی میں فاٹا کی 21 نشستیں مختص ہیں اور نئے شامل ہونے والے علاقوں کی یہ نشستیں صوبائی اسمبلی اور اس کی منتخب حکومت پر ضرور اثر ڈالیں گی۔

انہوں نے کہا کہ عام انتخابات کے بعد اور قبائلی علاقوں میں انتخابات کے اختتام تک صوبے میں سیاسی غیر یقینی کا بھی قوی امکان ہے اور صوبے میں سیاسی حکومت کے اقتدار کے دوران قبائلی علاقوں میں صاف اور شفاف انتخابات کا انتعقاد کافی مشکل ہوگا۔

پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ فاٹا کی 21 نشستوں کے لیے انتخابات میں تاخیر ایک سنجیدہ معاملہ ہے، جسے وسیع تر قومی مفاد میں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب جماعت اسلامی کے صوبائی امیر سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ الیشکن کمیشن کو صوبائی اسمبلی میں فاٹا کی نشستوں پر انتخابات 2019 کے بجائے 2018 کے عام انتخابات کے ساتھ منعقد کرنے چاہئیں۔

یہ بھی پڑھیں: فاٹاکا خیبرپختونخوا میں انضمام: سینیٹ سے 31ویں آئینی ترمیم منظور

انہوں نے کہا کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں ان کی جماعت متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے کتاب کے نشان پر عام انتخابات میں حصہ لے گی اور 5 مذہبی جماعتوں کا اتحاد خیبرپختونخوا اور حال ہی میں ضم ہونے والے فاٹا میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرے گی۔

صوبائی امیر کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قبائلی علاقوں کے انفرااسٹرکچر کو بری طرح نقصان پہنچا تھا، لہٰذا حکومت کو یہاں کے عوام اور علاقے کی ترقی کے لیے 110 ارب روپے کے اضافی پیکیج کا اعلان کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سابقہ قبائلی علاقوں کو قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے کل حصے میں 3 فیصد ملنا چاہیے اور قبائلی علاقوں کو 70 سال کے لیے تمام ٹیکسوں سے چھوٹ دینی چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں