لندن: برطانوی حکومت کی جانب سے شادی قانون میں ایک ترمیم پر کام کیا جارہا ہے تاکہ غیر رجسٹرڈ نکاح تقریبات کو جرم قرار دیا جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مقامی حکومت اور کمیونٹیز ڈپارٹمنٹ کی جانب سے مسودے کو قانون سازی کے لیے بھیجنے سے قبل عوامی رائے جاننے کے لیے ایک گرین پیپر شائع کیا گیا تھا، جس پر مشاورت کی مدت بھی 5 جون کو ختم ہونے والی ہے۔

اس گرین پیپر کے مطابق اگر نکاح پڑھانے والا امام اس بات کو یقینی نہیں بناتا کہ شادی کرنے والے جوڑے نے پہلے یا اسی دن قانونی طور پر اپنی شادی کا اندراج کیا ہے تو اسے کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ: مسلمانوں پر ’حملے کیلئے اکسانے‘ والا خط تقسیم

خیال رہے کہ مسیحی اور یہودی کمیونٹیز کے لیے بھی شادی کے معاملے میں یہی شرائط ہیں۔

واضح رہے کہ برطانیہ کی وزیراعظم تھریسامے نے بطور سیکریٹری داخلہ حکم دیا تھا کہ شریعہ قانون کی درخواست پر آزادانہ جائزہ لیا جائے، بعد ازاں فروری 2018 میں اس جائرہ رپورٹ میں یہ تجویز دی گئی کہ 1949 کے شادی ایکٹ میں ترمیم کی جائے، جس کے باعث کوئی بھی شادی کرانے والے امام کو غیر رجسٹرڈ شادی میں نکاح پڑھانے کی صورت میں جرمانے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

برطانیہ اور ویلز میں شریعہ قانون کی درخواست پر آزادانہ جائزہ لینے والے پینل کی سربراہ یونیورسٹی آف ایڈن برگ کے ڈیوینٹی اسکول میں اسلامک اور بین المذاہب تعلیمات کی پروفیسر مونا صدیقی تھی جبکہ ان کے ہمران لیڈز کی مکہ مسجد کے امام قاری محمد عاصم اور اہل تشیع اسکالر امام سید علی عباس دیگر ارکان میں شامل تھے۔

دوسری جانب اس ترمیم کی تجویز کا اصل مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مسلم خواتین شریعہ کونسل پر انحصار کرنے کے بجائے برطانوی عدالتوں میں طلاق کے لیے درخواست دے سکیں۔

اس رپورٹ کی اعداد و شمار اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں کی بڑی تعداد قانونی طور پر شادی شدہ نہیں ہے اور ان کی یونین نے انہیں رجسٹرڈ نہیں کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ایک لاکھ مسلمان خواتین جنہوں نے اسلامی تقریبات میں نکاح کیا، ان کی شادی رجسٹرڈ نہیں ہے، جس کے باعث وہ عام خاندان کی عدالتوں سے طلاق حاصل کرنے کا حق کھو دیتی ہیں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل ایک سرکاری ملازم ڈیم لوئس کیسے کی جانب سے ایک رپورٹ میں اس بات کا مشاہدہ کیا گیا تھا کہ شریعہ کونسل مسلم خواتین خاص طور پر پاکستانی اور بنگلہ دیشی برادری کی خواتین کو کمزور کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں خواتین کی مسجد کا منصوبہ

اگرچہ حکومت کی جانب سے شادی قانون میں ترمیم کی تجویز مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کی جارہی لیکن اس کے دور رست اثرات کے طور پر دیکھا جارہا کیونکہ اس وقت پاکستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے مسلمان مقامی مسجد کے امام اور اسلامی سینٹر کی نگرانی میں مذہبی تقریبات میں شادی کر رہے ہیں جبکہ کچھ ایسے کیسز بھی دیکھے گئے جن میں نکاح کی نگرانی کے وقت شادی کرنے والے جوڑے کی امیگریشن حیثیت نہیں دیکھی گئی۔

ایسی صورتحال انہیں یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنے ملک واپس جائے بغیر برطانیہ میں اپنے شریک حیات کے ویزے کے لیے رجوع کرسکیں جبکہ عام صورتحال میں اس طرح کے ویزا کے حصول کے لیے اپنے ملک واپس جانا پڑتا ہے۔

اس کے علاوہ ان کی ملک میں موجودگی انہیں اس بات کی بھی اجازت دیتی ہے کہ کسی بھی منفی فیصلے کی صورت میں وہ انسانی حقوق کی بنیاد پر اس کے خلاف اپیل کرسکیں، اور یہ عمل غیر قانونی تارکین وطن کو ڈیپورٹ کرنے کے عمل میں امیگریشن حکام کو مایوس کرتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں