اسلام آباد: آئندہ انتخابات کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی حاصل کرنے کا عمل مکمل ہوگیا، تاہم الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا ہے کہ نامزدگی فارمز میں سے اہم شقوں کے اخراج کے بعد امیدوار کی مکمل جانچ پڑتال کرنا ممکن نہیں۔

اس حوالے سے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ فارمز میں سے انتہائی ضروری اور بنیادی معلومات کے سوالات کو خارج کردیا گیا، جس میں امیدوار، ان کے شریک حیات یا اولاد کے نام پر بینک سے حاصل کردہ قرض کی تفصیلات وغیرہ، حکومتی قرض یا یوٹیلیٹی بلز کے نادہندگان ہونے کی معلومات بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ نے انتخابات کے نامزدگی فارم کو کالعدم قرار دے دیا

اسی طرح امیدوار کے شریک حیات اور اہل خانہ کی تفصیلات، امیدوار یا اس پر انحصار کرنے والے کسی فرد کے نام پر موجود کمپنیوں کی تفصیلات، کسی جرم کے الزام میں مقدمے کی تفصیلات، تعلیمی قابلیت کی معلومات، موجودہ ذریعہ آمدنی کی تفصیلات، قومی ٹیکس نمبر، گزشتہ تین سال کے دوران ٹیکس کی ادائیگی کی تفصیلات بھی موجود نہیں۔

نامزدگی فارمز میں گزشتہ 3 سالوں میں کیے جانے والے بیرون ملک سفر کی تفصیلات، ذرعی آمدنی پر ادا کردہ ٹیکس کی تفصیلات، سابق امیدوار کی جانب سے اپنے حلقے میں کیے گئے کام کی تفصیلات، کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہونے کی صورت میں پارٹی کو دی جانے والی یا پارٹی سے وصول کی جانے والی رقم کی تفصیلات، الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی پابندی کرنے کا حلف بھی موجود نہیں۔

مزید پڑھیں: 2018ء کے انتخابات ’الیکٹیبلز‘ کے لیے مشکل ثابت کیوں ہوسکتے ہیں؟

اس کے علاوہ نامزدگی فارم میں گزشتہ اور موجودہ مالی سال کے دوران اصل اثاثہ جات کی تفصیلات اور دونوں سالوں میں پائے جانے والے فرق کی معلوت، جائیداد کی مالیت، غیر ملکی پاسپورٹ کی معلومات، ذاتی اخراجات کی تفصیلات اور نہ ہی اس بات کا حلف نامہ موجود ہے کہ امیدوار دہری شہریت کا حامل نہیں ہے۔

عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ انتخابی ایکٹ کی دفعہ 62 (1) کے تحت کوئی بھی ووٹر کسی بھی ایسے امیدوار کی نامزدگی کو ریٹرننگ افسر کے سامنے مقررہ وقت میں چیلنج کرسکتا ہے جو نامزد ہوچکا ہو یا کسی سیاسی جماعت کی جمع کرائی گئی کسی اسمبلی کے انتخابی فہرست میں شامل ہو۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: نامزدگی فارم میں تبدیلی کے خلاف پٹیشن خارج

ان کا مزید کہنا تھا کہ انتخابات ایکٹ کی دفعہ 62 (7) کے تحت کاغذات کی جانچ پڑتال کے دوران ریٹرننگ افسر امیدوار سے کوئی بھی ایسا سوال نہیں کرسکتا جس کا نامزدگی فارم میں دی گئی معلومات سے کوئی تعلق نہ ہو یا اس حوالے سے کسی نے بھی اعتراض نہ اٹھایا ہو۔

دوسری جانب شق 62 (8) اس حوالے سے طریقہ کار وضع کرتی ہے کہ دفعہ62 (d) کے تحت جمع کرائے گئے جائیداد اور اثاثہ جات کی بابت صرف اس صورت سوال کیا جاسکتا ہے جبکہ کوئی ٹھوس شواہد موجود ہوں، جس کے بعد ریٹرننگ افسر پابند ہوگا کہ نامزدگی فارم اے میں دیے گئے بیان کے تحت فارم کی جانچ پڑتال کرسکے جو اہلیت اور نااہلیت کے لیے ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: ’ذہن سے نکال دیں کہ الیکشن تاخیر کا شکار ہوں گے‘

اس ضمن میں انہوں نے مزید بتایا کہ 8 جون کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے۔

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سے منظور کیے جانے والے نامزدگی فارم میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں کی گئی، انہوں نے نشاندہی کی کہ قومی ٹیکس نمبر کا اب فرد کی ذاتی معلومات سے کوئی تعلق نہیں، کیوں کہ وفاقی بورڈ آف ریونیو کمپیٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ نمبر سے باآسانی ٹیکس نادہندگان کا تعاقب کرسکتا ہے۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ تعلیمی قابلیت کا آئین کے تحت نااہل ہونے سے کوئی لینا دینا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات 2018: سیاسی جماعتیں ٹکٹ کی تقسیم پر اندرونی اختلافات کا شکار

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب کوئی یہ حلف اٹھاتا ہے کہ وہ نامزدگی کے لیے ضروری شرائط کے تحت نااہل نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ دوہری شہریت نہیں رکھتا، حکومتی واجبات کے نادہندگان میں شامل نہیں اور گزشتہ 2 سال کے دوران کسی مجرمانہ یا غیر اخلاقی سرگرمی میں بھی ملوث نہیں رہا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 5 جون 2018 کو شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں