اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ایک کیس کی سماعت کے دوران انتخابات 2018 سے متعلق ریمارکس میں زور دیا ہے کہ یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ الیکشن تاخیر کا شکار ہوں گے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ورکر پارٹی کیس کی سماعت کی، جس میں الیکشن کمیشن کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر ضابطہ اخلاق بنایا۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس ضابطہ اخلاق کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، سپریم کورٹ انتخابی اصلاحات پر 2012 میں فیصلہ دے چکی ہے اور اس فیصلے میں الیکشن کمیشن کے اختیارات کا بھی تعین کر دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: نامزدگی فارم میں تبدیلی کے خلاف پٹیشن خارج

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات 2 یا 3 ماہ کے لیے ملتوی کرنے والی بات ذہن سے نکال دیں، انتخابات وقت پر ہوں گے۔

الیکشن کمیشن حکام نے ورکر پارٹی کیس کی سماعت کے دوران عدالت عالیہ کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی اور سیاسی جماعتوں کی باہمی رضا مندی سے ضابطہ اخلاق تیار کیا گیا، جیسا کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کو شفاف اور غیر جانب دار انتخاب کرانے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی گئی تھی۔

اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن خود کو با اختیار سمجھتا تو کاغزات نامزدگی کا تنازع ہی کھڑا نہ ہوتا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب کیا کیا جا سکتا ہے، نئے کاغزات نامزدگی کی وجہ سے بہت سے امیدوار معلومات اکٹھی ہی نہیں کر سکے۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے شہباز شریف کو انتخابی مہم چلانے سے روک دیا

دوران سماعت الیکشن کمیشن حکام نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی منظوری کے بعد دوبارہ ضابطہ اخلاق پر نظر ثانی کی گئی اور انتخابات 2018 کے لیے نیا ضابطہ اخلاق تیار کیا۔

اس پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یہ درست نہیں ضابطہ اخلاق 2017 میں ہی جاری ہوا، کاغذات نامزدگی کا معاملہ عدالت کے سامنے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اب اگر پرانے کاغزات نامزدگی بحال کیے جاتے ہیں تو اُمیدواروں کو بہانہ مل جائے گا کہ ہمارے پاس معلومات نہیں ہیں، اس لیے چاہتے ہیں کہ انتخابات تاخیر کا شکار نہ ہوں۔

مزید پڑھیں: بھرتیوں پر پابندی: اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ عوامی ووٹوں سے بننے والی پارلیمنٹ با اختیار ہے اس نے قانون سازی کر دی ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں، اب قانون سازی ہو چکی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 6 جون تک کے لیے ملتوی کر دی۔

تبصرے (0) بند ہیں