سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف احتساب کا تاریخی ٹرائل نواز شریف کے قانونی اور سیاسی مستقبل کے بارے میں مزید عدم یقینی کے ساتھ ختم ہوگا۔

لندن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے نواز شریف نے اشارہ دیا کہ جب ان کی اہلیہ کلثوم نواز ہوش میں آ جائیں گی تو وہ پاکستان واپس لوٹ آئیں گے۔

یہ بتائے بغیر کہ ان کی طبیعت میں بہتری کی توقع کب ہے، نواز شریف نے نیب عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے خلاف جاری تین احتساب ریفرینسز میں سے پہلے کا فیصلہ تب تک مؤخر کر دیں جب تک کہ وہ پاکستان واپس نہیں آ جاتے، تاکہ وہ عدالت میں خود موجود ہو کر فیصلہ سن سکیں۔

نیب عدالت کا فیصلہ کل متوقع ہے اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا نواز شریف کی درخواست مانی جاتی ہے یا نہیں۔ یقیناً نیب عدالت اور نواز شریف، دونوں ہی مشکل صورتحال میں ہیں۔

نیب عدالت کو احتساب ٹرائل جلد از جلد مکمل کرنے کی سپریم کورٹ کی ہدایات پر ہر صورت میں عمل کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ چاہے نواز شریف کے خلاف پہلے ریفرینس کا فیصلہ جو بھی ہو، اس کا مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم اور انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کا امکان موجود ہے۔

اس دوران، کلثوم نواز کی طبی حالت بلاشبہ سنگین ہے اور نواز شریف کا پاکستان لوٹنے سے پہلے اپنی اہلیہ کو ہوش میں دیکھنا قابلِ فہم ہے کیوں کہ انہیں فوری جیل بھی ہو سکتی ہے۔

مگر پھر بھی نواز شریف پاکستان سے واضح گارنٹی دے کر گئے تھے کہ وہ پاکستان واپس آئیں گے اور عدالتی احکامات کے مطابق نیب ٹرائل کا سامنا کرتے رہیں گے۔ اور جہاں نواز شریف اور ان کی اہلیہ کی طبی صورتحال کے ساتھ ہمدردی ممکن ہے، وہاں دیکھنا چاہیے کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے اسلام آباد میں نیب کورٹ میں ٹرائل کا سامنا کیا ہے جبکہ اس دوران کلثوم نواز لندن میں نگہداشت سے گزرتی رہی ہیں۔

چنانچہ اگر عدالت فیصلہ سنانے میں تاخیر سے انکار کر دیتی ہے تو نواز شریف کو فوراً پاکستان لوٹ آنا چاہیے اور فیصلہ سنائے جانے کے وقت انہیں عدالت میں موجود ہونا چاہیے۔

سیاسی نکتہ نظر سے یہ دکھ رہا ہے کہ نواز شریف کی غیر موجودگی نے مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم پر فوری اور بے تحاشہ اثر ڈالا ہے۔ شہباز شریف اور باقی لیگی قیادت عوام میں جوش پیدا کرتی ہوئی نظر نہیں آ رہی، اور لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اب بھی وہی پارٹی ہے جو بنیادی طور پر نواز شریف کی سیاسی کشش کی وجہ سے ہی باقی ہے۔

جمہوری نکتہ نظر سے دیکھیں تو یہ واضح طور پر مایوس کن ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پر انہی شخصیات کا غلبہ ہے جو سیاسی منظرنامے کا مستقل حصہ معلوم ہوتی ہیں۔

یہ امید تھی کہ جمہوری تسلسل سے ملک میں سیاسی قیادت کی ایک نئی نسل سامنے آئے گی اور بااختیار بنے گی، مگر سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری روایات پیدا کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ایسی کوئی قیادت ارتقاء پذیر نہیں ہو سکی ہے۔

اگر نواز شریف مسلم لیگ (ن) کا چہرہ اور شناخت بنے رہنا چاہتے ہیں، تو انہیں ایک مشکل ذاتی فیصلہ لیتے ہوئے فوراً پاکستان لوٹ آنا چاہیے۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 5 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں