انتہائی دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں اور دائیں بازو کی عسکری جماعتوں کو قومی سیاست میں لانا تمام صحیح الدماغ اور جمہوری سوچ رکھنے والے پاکستانی شہریوں کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔

یہ واضح نہیں کہ عسکریت پسند گروہوں کو مرکزی دھارے میں لانے کی یہ پالیسی غیر محسوس انداز میں عوام پر تھوپی جا رہی ہے، یا پھر انتہائی دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں اور عسکریت پسند گروہوں نے خود ہی سیاست میں آنے کا یہ تاریخی موقع تلاش کر لیا ہے۔

مگر جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ 2018 کے عام انتخابات میں ممکنہ طور پر انتہاپسند مذہبی گروہوں کی تاریخی شمولیت ہوگی، جس میں کچھ واضح طور پر عسکریت پسند ہیں جبکہ کچھ کم واضح طور پر۔

مقابلے کر رہے امیدواروں، حاصل کیے گئے ووٹوں، اور جیتی گئی نشستوں کے معاملے میں 2018 کے انتخابات شاید ایم ایم اے کو کامیابی دلانے والے 2002 کے انتخابات کے یا تو مقابل ہوں گے، یا انہیں پیچھے چھوڑ دیں گے۔

مگر ایم ایم اے میں بنیادی طور پر مرکزی دھارے کی مذہبی جماعتیں تھیں جن کے انتخابی اور پارلیمانی ٹریک ریکارڈ موجود تھے۔ حال ہی میں انتہائی دائیں بازو کے عسکریت پسند انتخابی امیدواروں اور ان کے حامیوں کا رونما ہونا یقینی طور پر بے مثال ہے۔

ایسا کیسے ہوا ہے؟ تحریکِ لیبک پاکستان کا اچانک سیاسی ظہور؛ ملی مسلم لیگ، جو سویلین اداروں کو قائل کرنے میں ناکام رہی کہ اسے الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹر ہونا چاہیے، اس کی نئی شناخت؛ اور کالعدم اہلِ سنت والجماعت کے ساتھ وابستہ امیدواروں کی راہ سے قانونی رکاوٹوں کا اچانک خاتمہ خصوصی تشویش کا باعث ہیں۔

بلاشبہ افراد کا بحیثیت ووٹر یا امیدوار انتخابات میں حصہ لینے کا حق تب تک چھینا یا محدود نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس حوالے سے ایک ٹھوس قانونی وجہ، یا پھر عدالتی حکم موجود ہو۔ مگر کم سے کم تمام امیدواروں کو تشدد چھوڑنے، اور آئینی جمہوری نظامِ حکومت کی حمایت کا عہد کرنا تو لازم قرار دیا جا سکتا ہے۔

مگر انتہائی دائیں بازو کا بیانیہ اکثر نفرت انگیز تقریر، تشدد پر ابھارنا، اور فرقہ وارانہ تناؤ پھیلانے کی کوشش قرار پا سکتا ہے۔ اور جب ایسے گروہوں کی بات ہو جو بیرونِ ملک عسکریت پسندی کا بھی رجحان رکھتے ہوں تو انتخابات میں ان کی شرکت پاکستان کو بین الاقوامی قوانین اور عسکریت پسندی کے خلاف بین الاقوامی اتفاقِ رائے کے خلاف دھکیل سکتی ہے۔

اور یہ کہ جہاں مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کی بے مثال جانچ پڑتال ہوئی ہے اور کئی مرکزی دھارے کے سیاستدانوں کو بیلٹ پیپر پر اپنا نام چھپوانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑی ہے، وہیں انتہائی دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کی کوئی عوامی جانچ پڑتال نہیں ہوئی ہے۔

شاید اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ تحریکِ لبیک پاکستان ملک بھر سے قومی اسمبلی کے لیے 150 امیدوار کھڑے کر چکی ہے اور ان میں سے کسی بھی امیدوار کو الیکشن کمیشن کی زیرِ نگرانی چلنے والے نامزدگی مرحلے میں کوئی مشکل نہیں اٹھانی پڑی ہے۔

اس دوران لشکرِ طیبہ کے تازہ ترین سیاسی روپ اللہ اکبر تحریک نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں کم از کم 50 قومی اسمبلی کے امیدوار کھڑے کر لیے ہیں، جن کی تقریباً کوئی بھی عوامی جانچ پڑتال نہیں ہوئی ہے۔

مرکزی دھارے میں لانے کا پریشان کن مسئلہ، اور اس سے اٹھنے والے کئی پالیسی اور قانونی سوالات قالین کے نیچے نہیں دبائے جا سکتے۔ جمہوری نظام اس طرح کی مداخلت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 6 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں