ترک حکام نے پولیس افسران، فوجی اہلکاروں سمیت 18 ہزار 5 سو سرکاری ملازمین کو بغاوت کی صورتحال کے پیش نظر لگائی گئی 2 سالہ ایمرجنسی کے خاتمے سے قبل برطرف کردیا۔

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سرکاری اعلامیے میں کہا گیا کہ 18 ہزار 632 افراد کو برطرف کیا گیا جن میں 8 ہزار 998 پولیس افسران شامل ہیں، ان افسران کو ملکی سلامتی کے خلاف کام کرنے والی دہشت گرد تنظیم کا ساتھ دینے پر برطرف کیا گیا۔

خیال رہے کہ ترکی میں جولائی 2016 کو صدر رجب طیب اردوان کو ہٹانے کی کوشش کے بعد سے سے ایمرجنسی نافذ ہے تاہم یورپی یونین اور ناقدین نے بارہا انقرہ سے اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ترکی: بغاوت کے الزام میں 2 ہزار 700 سرکاری ملازمین برطرف

ترک میڈیا کے مطابق اتوار کو سرکاری ملازمین کی برطرفی کا آخری مرحلہ پورا ہوگیا تاہم حکام نے اشارہ دیا ہے کہ پیر کی صبح دوبارہ ایمرجنسی نافذ ہوسکتی ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ترک صدر ایمرجنسی نافذ کیے جانے پر اختیارات کو استعمال کر رہے ہیں تاکہ مخالفین کو نشانہ بنایا جاسکے۔

تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ’یہ انتہائی ضروری ہے تاکہ ریاستی اداروں میں موجود خطرات کا خاتمہ کیا جاسکے۔

خیال رہے کہ رجب طیب اردوان 24 جون کو ہونے والے انتخابات کے پیش نظر پیر کو صدارت کا حلف اٹھائیں گے جس کے بعد نئی کابینہ کا اعلان کیا جائے گا۔

ترکی میں 2017 کے ریفرنڈم کے بعد آئینی تبدیلیوں کے بعد موجودہ پارلیمانی نظام کا بھی اسی دن خاتمہ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی میں ناکام فوجی بغاوت، 265 افراد ہلاک

ترک انتخابات سے قبل رجب طیب اردوان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ریاست میں ایمرجنسی کے خاتمے کا بھی وعدہ کر رکھا ہے۔

واضح رہے کہ ترکی نے امریکا میں مقیم مسلمان عالم فتح اللہ گولن پر بغاوت کا الزام لگایا تھا۔

برطرف کیے گئے زیادہ تر افراد پر الزام ہے کہ ان کا تعلق فتح اللہ گولن سے ہے۔

حکومت نے اس تحریک کو ’فتح اللہ دہشت گرد تنظیم‘ کا نام دیا ہے تاہم فتح اللہ گولن نے ترک حکومت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی تنظیم امن پسند ہے۔

جولائی 2016 میں نافذ کی گئی ایمرجنسی کے بعد سے اب تک تقریباً 1 لاکھ 10 ہزار کے قریب سرکاری ملازمین کو برطرف کیا جا چکا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں