انقرہ: ترک حکومت نے گزشتہ برس حکومت کے خلاف بغاوت میں ‘دہشتگردوں’ سے مبینہ تعلق کے الزام میں پولیس اور فوجی اہلکاروں سمیت 2 ہزار 700 سے زائد سرکاری ملازمین کو ان کی نوکریوں سے برخاست کردیا۔

خیال رہے کہ دو مختلف سرکاری حکم نامے وزارت دفاع کے بجائے ترک انٹیلی جنس سروس (ایم آئی ٹی) کو جاری کیے گئے۔

ترکی کی انٹیلی جنس سروس بھی رواں برس اگست سے صدر طیب اردگان کے زیر کنٹرول آگئی۔

یہ پڑھیں: ناکام فوجی بغاوت کو 1 سال مکمل، ترکی میں تقریبات

سرکاری حکم نامے کے مطابق برطرف کیے گئے کل 2 ہزار 756 افسران میں سے پولیس اور فوجی اہلکاروں سمیت اساتذہ بھی شامل ہیں۔ برطرفیوں کا عمل وزارت دفاع، وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ میں بھی ہوا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس ضمن میں دو اخبارات، 7 ایسوسی ایشن اور 17 مختلف اداروں کو اپنے انتظامی امور ختم کرکے مستقل بنیادیوں پر بند کرنے کے احکامات صادر کیے جا چکے ہیں۔

گزشتہ برس جولائی میں طیب اردگان کے خلاف فوجی بغاوت کو ناکامی سامنا کرنا پڑا جبکہ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فوجی بغاوت کے پیچھے امریکا میں جلا وطن مبلغ فتح اللہ گولن ہیں تاہم انہوں نے متعدد مرتبہ اپنے اوپر بغاوت کا الزام کو مسترد کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی میں ناکام فوجی بغاوت، 265 افراد ہلاک

ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک حکومت نے ججز، وکیل اور اساتذہ سمیت 1 لاکھ 40 ہزار افراد کو نوکریوں سے برخاست یا معطل کردیا جبکہ اسی دوران تقریباً 55 ہزار فتح اللہ گولن کے حامیوں اور ہمدردوں کو گرفتار کیا گیا۔

بغاوت کی کوشش میں دو ہزار 745 ججز اور دو ہزار 839 فوجیوں کو ملوث قرار دیا گیا۔

واضح رہے کہ فتح اللہ گولن اپنی تحریک 'حزمت' کے ذریعے صوفی ازم کی طرز پر مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی تعلیم دیتی ہے اور اس تحریک کے تحت امریکا، یورپ، ایشیا اور افریقہ میں سیکڑوں تعلیمی اور سماجی خدمات کے ادارے کام کر رہے ہیں۔

ترک حکومت کی جانب سے گولن پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے 'ریاست کے اندر ریاست' قائم کر رکھی ہے جبکہ ان کے حامیوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت صحافت، عدلیہ، فوج، پولیس اور بیوروکریسی میں اپنا حلقہ اثر قائم کر رکھا ہے۔

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت

گزشتہ برس ترک فوج کے ایک باغی گروپ نے حکومت کا تختہ الٹنے کا اعلان کرتے ہوئے ترکی کے سرکاری نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی پر جاری ہونے والے بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں مارشل لاء اور کرفیو نافذ کردیا گیا ہے، جبکہ ملک اب ایک 'امن کونسل' کے تحت چلایا جا رہا ہے جو امنِ عامہ کو متاثر نہیں ہونے دے گی۔

مزیدپڑھیں: ترکی میں تعلیمی اداروں سے 27 ہزار ملازمین برطرف

انقرہ پر جنگی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں نے نچلی پروازیں کیں، جبکہ دھماکے کی بھی آوازیں دسنائی دینے لگیں۔

صحافتی فرائض میں مشغول ایک غیر ملکی رپورٹر نے ہیلی کاپٹر کو فائر کرتے ہوئے بھی دیکھا جبکہ ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق فوجی ہیلی کاپٹروں نے انٹیلی جنس ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پر بھی حملہ کیا تھا۔

نشریاتی ادارے این ٹی وی کے مطابق ایک ترک ایف سولہ طیارے نے دارالحکومت انقرہ کے اوپر ایک فوجی ہیلی کاپٹر کو مار گرایا جسے فوج کا باغی دھڑا استعمال کر رہا تھا۔

بعد ازاں حکومت اور عوام نے کامیابی کے ساتھ مزاحمت کرتے ہوئے فوجی بغاوت کو ناکام بنادیا تھا۔


یہ خبر 25 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں