غلہنئی: مہمند ایجنسی کے ووٹرز نے کہا ہے کہ وہ عام انتخابات میں اپنے خاندان کی خواتین کو اسی صورت میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دیں گے کہ اگر ان کے لیے علیحدہ پولنگ اسٹیشنز قائم کیے جائیں۔

اتوخیل علاقے کی تحصیل حلیم زئی کے رہائشی حیران مہمند کا کہنا تھا کہ خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے لیکن یہ علاقے میں امن و امان کی صورتحال پر بھی انحصار کرتا ہے، خواتین صرف اسی صورت میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکتی ہیں کہ اگر حکومت انہیں مکمل سیکیورٹی فراہم کرے۔

خیال رہے کہ مہمند ایجنسی میں ایک لاکھ 58 ہزار 873 مرد ووٹرز کے مقابلے میں 96 ہزار 679 خواتین ووٹرز رجسٹرز ہیں۔

تاہم اس علاقے میں خواتین کو ووٹ ڈالنے اور سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہونے میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن پاکستان ( ای سی پی ) کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے لیے یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ انتخابات کو کالعدم ہونے سے بچانے کے لیے خواتین کے 10 فیصد ووٹ لازمی بنائیں۔

اس حوالے سے حلیم زئی تحصیل کی 55 سالہ رہائشی خاتون گلونو کہتی ہیں کہ اگر ان کے لیے علیحدہ پولنگ اسٹیشن قائم کیے جائیں تو وہ ووٹ ڈال سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے معاشرے میں خواتین پر کوئی پابندی نہیں ہے اور 2013 کے انتخابات میں متعدد خواتین نے ووٹ ڈالے تھے‘۔

دوسری جانب ایک قبائلی بزرگ ملک سیف اللہ کا کہنا تھا کہ ’ اگر مرد ووٹ ڈال سکتے ہیں تو ہمیں کیوں خواتین کو ان کا حق رائے دہی استعمال کرنے سے روکنا چاہیے، آئندہ عام انتخابات میں خواتین حلیم زئی، اکاگہند، پندیالی اور پرنگ گھر تحصیل کی خواتین ووٹ ڈالیں گی کیونکہ مقامی لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور وہ بیلٹ کی اہمیت سے واقف ہیں‘۔

اس بارے میں ایک اور خاتون روزینہ بی بی کا کہنا تھا کہ وہ خواتین کے ووٹ کی اہمیت سے واقف ہیں اور اگر حکومت انہیں پرامن ماحول فراہم کرتی ہے تو خواتین اپنا حق استعمال کرنے کے قابل ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ قبائلی رسومات کچھ خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دیتی لیکن اس انتخابات میں مقامی افراد اور سیاسی رہنما ایک صفحے پر ہیں کہ خواتین کو ووٹ ڈالنا چاہیے۔


یہ خبر 15 جولائی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں