کابل: افغانستان کے مشرقی اور مغربی علاقوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کے خلاف طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوگیا، اور دو روز کے دوران 14 پولیس اہلکار ہلاک اور 10 زخمی ہوگئے۔

خیال رہے کہ امریکا کی جانب سے افغانستان میں قیام امن اور غیرملکی افواج کی واپسی پر طالبان کے براہ راست مذاکرات کے مطالبے پر مثبت ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حالیہ پیش رفت کے باوجود جنگجوؤں کی جانب سے افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کے خلاف پر تشدد کارروائیوں میں کئی ہلاکتیں دیکھنے میں آئیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: چیک پوسٹ کے قریب خود کش حملہ،12 افراد ہلاک

واضح رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں طالبان کی جانب سے جنگجوؤں کو ہدایت جاری کی گئی تھی کہ شہریوں کو نشانہ نہ بنایا جائے، حالانکہ اس قسم کی ہدایات پہلے بھی دی جاچکی ہیں تاہم حالیہ اقدام کو افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کے پیش نظر خاصی اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جارہا تھا۔

طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم واشنگٹن کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کے منتظر ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنے خدشات اور تحفظات دور کرنے کے لیے امریکا سے براہ راست مذاکرات کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ افغان حکومت امریکا کی ہدایات پر ہی عمل کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان اور داعش کے حملوں میں 29 افراد ہلاک

اس حوالے سے صوبہ غزنی کے حکومتی عہدیدار شعیب خان الہام کا کہنا تھا کہ مزاحمت کاروں کی حالیہ کارروائیاں پولیس کمپاؤنڈز اور سیکیورٹی چوکیوں پر کی گئیں، اور طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مذکورہ حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔

صوبہ زابل میں بھی طالبان کی جانب سے کئی سیکیورٹی چوکیوں کو نشانہ بنا کر 6 اہلکاروں کو قتل جبکہ 3 کو زخمی کردیا گیا، حملے کے بعد جنگجو اسلحہ اور دھماکا خیز مواد ساتھ لے کر فرار ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر افغانستان میں جاری جنگ کے منفی نتائج سے مایوس

دوسری جانب صوبہ جاوزجان کے دور دراز علاقوں میں افغان طالبان اور داعش کے جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں متعدد افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور حالیہ دنوں میں ہزاروں لوگ ان علاقوں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

اس حوالے سے حکومتی عہدیدار محمد رضا غفوری کا کہنا تھا کہ دونوں عسکری گروہوں کے مابین لڑائی کا سلسلہ ایک ہفتے سے جاری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں