اسٹار جنوبی افریقی فاسٹ باؤلر ڈیل اسٹین نے کرکٹ میں گیند اور بلے کے درمیان بڑھتے عدم توازن اور بلے بازوں کے لیے دن بدن بڑھتی آسانیوں پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل(آئی سی سی) سے باؤلرز کے لیے یکساں مددگار قوانین بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

موجودہ صدی کے کامیاب ترین فاسٹ باؤلرز میں سے ایک تصور کیے جانے والے ڈیل اسٹین اب تک ٹیسٹ کرکٹ میں 421 وکٹیں لے چکے ہیں اور انہیں جنوبی افریقہ کی جانب سے سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا شان پولاک کا ریکارڈ توڑنے کے لیے محض ایک وکٹ درکار ہے۔

کیپ ٹاؤن میں آسٹریلیا کی جانب سے بال ٹیمپرنگ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد کرکٹ میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو چکا ہے اور جہاں ایک طرف بال ٹیمپرنگ کی کھل کر مخالفت کی گئی وہیں باؤلرز کی جانب سے کھیل میں توازن برقرار رکھنے کے لیے کھیل میں چند انقلابی اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اسٹین نے کہا کہ میں کیپ ٹاؤن میں آسٹریلین کرکٹرز کے عمل کی مذمت ضرور کرتا ہوں لیکن اس واقعے سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ کرکٹ میں ریورس سوئنگ کے فن کو خاتمے سے بچانے کے لیے کھیل کے قوانین کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ کھیل میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بلے بازوں کے حق میں قوانین بنائے جا رہے ہیں جیسے محدود فیلڈنگ، دو نئی گیندیں، پاور پلے، بلوں کے بڑھتے حجم سمیت متعدد قوانین شامل ہیں اور یہ فہرست دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

اسٹین نے کہا کہ ہم نو بال کرتے ہیں تو فری ہٹ دے دی جاتی ہے لیکن میں نے کوئی ایسا قانون نہیں دیکھا جو باؤلرز کے حق میں ہو۔

کرکٹ میں خصوصاً ون ڈے کرکٹ میں 2011 میں دونوں اینڈ سے نئی گیند استعمال کرنے کا قانون متعارف کرائے جانے کے بعد بلے بازوں کے لیے کھیل مزید آسان ہو گیا کیونکہ اس کے نتیجے میں گیند ریورس سوئنگ ہونا تقریباً ختم ہو گئی ہے۔

ایک تشہیری مہم کے دوران گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ریورس سوئنگ کا فن دم توڑ رہا ہے اور ایسا ہونا کھیل کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں وسیم اکرم اور وقار یونس کو باؤلنگ اور ریورس سوئنگ کرتے دیکھ کر بڑا ہوا ہوں، لیکن آج ہمیں ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا، اگر کوئی فاسٹ باؤلر نوجوانوں کو متاثر ہی نہیں کرے گا تو وہ بڑے ہو کر باؤلر کیوں بننا چاہیں گے بلکہ اس کی جگہ وہ باؤلنگ مشین رکھ کر بلے باز بننا پسند کریں گے۔

دونوں اینڈ سے نئی گیند متعارف کرائے جانے کے بعد کرکٹ میں بڑے بڑے اہداف مقرر کرنا آسان ہو گیا اور باؤلرز کے لیے رنز کا بہاؤ روکنا بھی ناممکن بن گیا ہے اور تقریباً ہر سیریز میں 350 یا 400 سے زائد رنز بننا معمول بن چکا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں عظیم بھارتی بلے باز سچن ٹنڈولکر نے بھی ریورس سوئنگ کے فن کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے دونوں اینڈ سے نئی گیند کا قانون ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں