تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ والدین ہر سال اپنے بچوں سے 2 ہزار 184 بار بحث کرتے ہیں اور نصف سے زائد بار بحث کھانے اور پینے کو لے کر ہوتی ہے۔

محققین نے ایسے 2 ہزار والدین کا سروے کیا جن کے بچوں کی عمر سے 2 سے 12 سال کے درمیان تھی۔ تحقیق میں پایا گیا کہ اکثر گھروں میں بچوں کے ساتھ کھانے پینے، کیا کرنا چاہیے کیا نہیں جیسے موضوعات پر روزانہ کی بنیاد پر جھگڑا شروع ہوجاتا ہے۔

نتیجتاً ہر دن گھروں میں اوسطاً 6 مرتبہ ایک دوسرے سے اختلاف پر بحث کرتے ہیں، مطلب گھروں میں ایک ہفتے میں مختلف باتوں پر 42 اور ایک ماہ میں 182 بار بحث کی جاتی ہے۔

بحث کی سب سے عام وجہ کھانا ہے، بچے اپنی پلیٹ پر موجود کھانے کو دیکھ کر خوش نہیں ہوتے اور یوں بحث کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، اس کے بعد دوسری عام وجہ ہے بے ترتیب اور بکھرے ہوئے بچوں کے کمرے۔ اس کے علاوہ ایک بڑی وجہ بچوں کی جانب سے بھوک کی شکایت کرنا مگر ’صحت بخش‘ کھانا دیکھ کر ناک بھوں چڑھا دینا بھی پائی گئی۔

10 میں سے 6 ماؤں اور والد نے تسلیم کیا کہ وہ پُرسکون فضا برقرار رکھنے کے لیے اکثر اپنے بچوں سے سمجھوتا کرلیتے ہیں۔

تحقیق کروانے والے ادارے کیپری سن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’اکثر والدین مانتے ہیں کہ اپنے بچوں کے ساتھ سمجھوتا کرکے ہی سب کو خوش رکھا جاسکتا ہے۔ اکثر گھروں میں کھانے اور پینے کے موضوع پر ہونے والے جھگڑوں کو ختم کرنے اور اس کے ساتھ خود کو بچوں پر غالب رکھنے کا بڑا ہی پیچیدہ سا ٹاسک والدین کو انجام دینا ہوتا ہے۔‘

مزید پڑھیے: بچے مسلسل کھیل کود کے باوجود تھکتے کیوں نہیں؟

چاکلیٹس اور میٹھی چیزیں کھانا اور ہوم ورک کے لیے بچوں کو بٹھانا بھی جھگڑوں اور بحثوں کی اہم وجوہات شمار ہوتی ہیں، جبکہ دیگر 10 اہم وجوہات میں موبائل یا کمپیوٹر کے استعمال پر ہونے والے اختلافات اور دانتوں کی صفائی بھی شامل ہے۔

تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ یہ فیملی جھگڑے تقریباً 8 منٹ تک ہی جاری رہتے ہیں۔

مائیں اور والد ایک دن میں 16 منٹ اپنے بچوں سے گفت و شنید میں گزارنے کی توقع کرتے ہیں، جبکہ تقریباً نصف کے قریب والدین بچوں کو انہی کی پسند کی کھانے اور پینے کی چیزیں دے کر سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔

10 میں سے ہر نوے والد یا والدائیں خود ان کی مرضی کے مطابق کام کرنے کے بدلے میں کچھ نہ کچھ دیتے ہیں، مثلاً اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر اضافی وقت (22 فیصد)، ریوارڈ چارٹ (26 فیصد) یا جیب خرچ (23 فیصد)۔ 45 فیصد والدین سزا کے طور پر اپنے بچوں کو اسکرین ٹائم نہ دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں